ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔ایک معاشی تھنک ٹینک نے انتظامی ڈھانچے کی اصلاحات کے لئے نئے صوبوں کے 3 منظر نامے تجویز کردیے ہیں،پہلے منظر نامے میں 12، دوسرے میں 15 سے 20 چھوٹے صوبے اور تیسرے میں 38 وفاقی ڈویژن ہوسکتے ہیں۔ معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیویلپمنٹ نے کے مطابق موجودہ انتظامی ڈھانچہ علاقائی معاشی ترقی کی خلیج کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکا، پاکستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ صوبوں میں آبادی کے بے تحاشا فرق کی وجہ سے مسائل ہیں، غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں سب سے سنگین مسئلہ آبادی کے بے تحاشا بڑھنے کے ساتھ ساتھ انتظامی ڈھانچے کی کمزوری ہے۔ ہر سال آبادی بڑھتی ہے، لیکن انتظامی اکائیاں وہی چار صوبے ہیں جو قیامِ پاکستان کے وقت قائم کیے گئے تھے۔ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کی موجودہ تقسیم اور ڈھانچہ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ نہ صرف یہ کہ صوبوں کے درمیان آبادی کا تناسب بگڑ چکا ہے بلکہ روزگار، غربت، صحت اور تعلیم میں بھی صوبوں کے درمیان فاصلہ ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چار صوبوں کی اوسط آبادی چھ کروڑ سے زیادہ ہے، جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک کی اوسط صوبائی یا ریاستی آبادی اس سے کہیں کم ہے۔ اس فرق نے نہ صرف صوبائی بجٹ کے استعمال کو پیچیدہ بنا دیا ہے بلکہ احساس محرومی کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جہاں دین اسلام کے عظیم المرتبت خلیفہ اور مقدس شخصیت تھے، وہیں تاریخ کے ایک غیر معمولی مدبر اور منتظم حکمران بھی تھے۔ ان کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ جب کسی شہر کی آبادی بڑھ جائے تو اسے مزید پھیلانے کی بجائے نیا شہر آباد کر، چنانچہ ان کے دور میں کوفہ، بصرہ اور فساط جیسے شہر بسائے گئے۔ مقصد یہی تھا کہ نئی آبادی کی شہری ضروریات، تعلیم، صحت اور روزگار کو سامنے رکھ کر ایک نیا مرکز قائم ہو، نہ کہ پرانے شہر کو بے ہنگم طریقے سے پھیلایا جائے۔ یہی فلسفہ آج کے پاکستان میں بھی ضرورت ہے۔
1951ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی۔ اس وقت چار صوبے اور چند ریاستی و قبائلی علاقے انتظامی اکائیاں تھے۔ آج آبادی بڑھ کر 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اکائیاں وہی کی وہی ہیں۔ کیا یہ عقلمندی ہے کہ ساڑھے سات کروڑ کو چار صوبے سنبھالیں اور چوبیس کروڑ کو بھی وہی چار صوبے چلانے کی کوشش کریں؟ یقینا نہیں، یہ انتظامی سطح پر ایک ناممکن عمل ہے، جسے ہم کیے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے صوبوں میں حکومت عوام سے دور ہو گئی ہے اور مسائل کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت پنجاب کے سولہ اضلاع پاکستان کے حصے میں آئے اور تیرہ اضلاع بھارت کے حصے میں۔ بھارت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اضلاع کو ایک الگ ریاست ہریانہ اور وفاقی شہر چندی گڑھ میں تقسیم کیا اور پنجاب کے کچھ علاقوں کو ہماچل میں شامل کر دیا، جبکہ پاکستان نے اپنے حصے کے سولہ اضلاع کو بدستور ایک ہی صوبے کے طور پر رکھا بلکہ ریاست بہاولپور کو بھی اس میں ضم کر دیا۔ یہی حال دیگر صوبوں کا ہے۔ اس حقیقت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مزید صوبوں اور انتظامی یونٹس کی کس قدر ضرورت ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اس ضرورت کو خالصتاً انتظامی تناظر میں دیکھنے کی بجائے نسل، زبان اور سیاست سے جوڑ دیا گیا۔ نسلی و لسانی بنیادوں پر صوبوں کا مطالبہ اور انہی بنیادوں پر مخالفت نے نئے یونٹس کی تشکیل کی بحث کو زہر آلود کر دیا ہے۔ نئے صوبے بنانے یا نہ بنانے کا تعلق زبان یا نسل سے نہیں بلکہ یہ ایک انتظامی تقاضا ہے۔ جب ایک شخص کو معمولی ضرورت کے لئے ڈیرہ غازی خان یا روجھان مزاری سے لاہور جانا پڑے تو یہ ناانصافی ہے۔ اگر وہی سہولت اس کے قریب تر صوبائی مرکز میں دستیاب ہو تو عوام کی مشکلات کم ہوں گی اور ان کا احساس محرومی ختم ہوگا۔
نئے صوبے بنانے کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ نئے صوبے قومی وحدت کو نقصان پہنچائیں گے مگر تاریخ اور تجربہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ نئے صوبے احساسِ محرومی ختم کریں گے، وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوگی، اختیارات گراس روٹ تک منتقل ہوں گے، جس سے وفاق مزید مضبوط ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ جب لوگوں کو شراکتِ اقتدار اور حکمرانی میں قریب تر نمائندگی کا احساس ہوگا تو وہ زیادہ وفاداری اور اعتماد کے ساتھ وفاق کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اس سے وفاق کمزور نہیں، بلکہ مضبوط ہوگا۔ یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ نظام میں صوبوں کو ملنے والے وسائل بھی غیر متوازن ہیں۔ پنجاب کو پانچ ہزار ارب روپے سے زیادہ ملتے ہیں جبکہ بلوچستان کو صرف ایک ہزار ارب روپے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں غربت کی شرح ستر فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ پنجاب میں یہ تیس فیصد ہے۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر چھوٹے صوبے بنائے جائیں تو وسائل کا استعمال زیادہ بہتر، شفاف اور مؤثر ہو سکتا ہے۔
نئے صوبوں کے قیام کے ساتھ انتخابی نظام کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام طاقت کے ارتکاز اور خاندانی سیاست کو فروغ دیتا ہے۔ اگر متناسب نمائندگی جیسے سنجیدہ اور منصفانہ طریقِ انتخاب کو اپنایا جائے تو عوامی نمائندگی حقیقی معنوں میں ممکن ہوگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصلاحات ناگزیر ہیں اور سماجی تنظیموں، تھنک ٹینکس اور سیاسی جماعتوں کو تعصب سے بالاتر ہو کر اس موضوع پر علمی اور مدلل مکالمہ کرنا ہوگا۔انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جب سات کروڑ کی آبادی کیلئے چار صوبے کافی سمجھے گئے تھے تو چوبیس کروڑ کی آبادی کیلئے انہی چار صوبوں پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک انتظامی نااہلی ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے صوبوں اور انتظامی یونٹس کی بحث اگرچہ فی الحال ایک شوشہ ہی ہے، مگر دراصل یہ عوامی امنگوں کی عکاس ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اسے تعصب اور جذباتی سیاست کے شعلوں کی نذر کرنے کی بجائے اس پر سنجیدہ مکالمہ کیا جائے ۔ ایک انتظامی ضرورت کے معاملے پر مرنے مارنے کی باتیں کرنا غیر معقول طرز عمل ہے۔ ملکی ترقی اور استحکام اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار میں عوامی شراکت زیادہ سے زیادہ ہو اور وسائل منصفانہ طور پر تقسیم ہوں۔ نئے صوبے اور نئے یونٹس اسی منزل کی طرف پہلا قدم ہیں۔