Flowers

مٹھاس بھری خوشبو

 

پروفیسر محمد اسلم بیگ۔ اسلام آباد

شمارہ ۱۱۳۵ میرے لیے سرپرائز بھی تھا اور پرائز بھی! سوچا بھی نہیں تھا کہ کتاب ’یادوں کے گلاب‘ کے بارے میں گلاب کی خوشبو اور گلاب جامن کی مٹھاس لیے ایک ایسی تحریر اس میں موجود ہوگی جسے دیکھنا اور پڑھنا میرے لیے باعث حیرت و مسرت ہوگا۔

اپنی کتاب پر کسی معزز لکھاری کے کلماتِ تحسین دیکھنا ہر مصنف کے لیے باعث مسرت ہوتا ہے لیکن مجھے خاص طور پر اس لیے زیادہ خوشی ہوئی کہ جناب ابو الحسن صاحب نے کتاب کا مطالعہ بہت باریک بینی سے اور اس پر تبصرہ نہایت عرق ریزی سے کیا ہے۔ سرورق سے لے کر آخر تک محترم نے کتاب کا توجہ سے مطالعہ کیا ہے اور جس جس تحریر کو قابلِ ذکر سمجھا اس پر اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ میں خود اگر اس کتاب پر تبصرہ کرتا تو تبصرے کے لیے زیادہ تر انہی تحریروں کا انتخاب کرتا۔

کتاب کی دو تحریروں کا تذکرہ خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ محترم ابوالحسن صاحب نے ان دو تحریروں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان کے لیے بے ساختہ یہ شعر زبان پر آتا ہے
دیکھنا ’تحریر‘ کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ’ہی‘ میرے دل میں ہے
(مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ)

بغیر کسی تکلف کے میں عرض کروں گا کہ انھوں نے واقعی میرے دل کی بات کی ہے اور یہ دو تحریریں ہیں: ’آج پھر‘‘ اور ’ہریالی چن لی‘
خونِ جگر سے لکھی گئی اِن دو تحریروں کو جناب ابو الحسن صاحب نے صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ محسوس بھی کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی طرح فاضل تبصرہ نگار بھی ایک حساس دل، نازک خیالات اور لطیف جذبات رکھتے ہیں۔

اُن کی یہ تحریر بیک وقت ایک جامع تبصرہ بھی ہے، ایک معیاری تقریظ بھی، تاثرات کا بھرپور اظہار بھی ہے اور قلبی احساسات کی سچی ترجمان بھی۔
تحریر پر مصنف کا نام نہیں تھا اِس لیے مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنا زبردست تبصرہ کون کر سکتا ہے؟ مجھے فوراً کراچی ہی کے مرحوم عبداللہ شمس یاد آگئے جو مجھے فون کر کے میری ہر تحریر پر اسی قسم کی سلجھی ہوئی رائے زبانی طور پر دیا کرتے تھے۔ میری بدقسمتی کہ میں اُن کی زیارت سے محروم ہی رہا۔ اسی لیے ان کی وفات پر میں نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ’مثل شمس و قمر‘ کے عنوان سے اپنے جذبات کا اظہار کیا جسے فاضل مدیر نے سرورق تحریر کے طور پر شاعر کیا اور سرورق پر عنوان کو ایک خوبصورت اور حسبِ حال منظر سے مزین کیا۔

گلاب کی خوشبو بکھیرنے والی اِس تحریر کے مصنف کے راز سے پردہ اٹھانے کے لیے میں نے مدیر صاحب سے رابطہ کیا۔ اُن سے معلوم ہوا کہ یہ خوبصورت تحریر ہمارے جانے پہچانے لیکن اَن دیکھے مصنف جناب ابو الحسن کے قلم کا شاہکار ہے تو بے اختیار اُن کے لیے دل و جان سے دعائیں نکلیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

موصوف بھی محترم مفتی آصف محمود قاسمی کی طرح سنتِ یوسفی کے سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِن دونوں حضرات کو اس آزمائش سے جلد نجات عطا فرمائے تاکہ وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں، آمین ثم آمین!

انھوں نے آخر میں ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ میری آئندہ آنے والی کتابوں کے نام بھی تجویز فرمائے ہیں۔ اِن دونوں کے لیے ان کا بہت شکریہ، لیکن ساتھ ہی اس دعا کی بھی درخواست کہ اللہ تعالیٰ وقت اور صحت میں اتنی برکت عطا فرمائے کہ آئندہ کوئی کتاب مرتب کی جا سکے ورنہ فی الحال تو اُس کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔

بہرحال ’گلاب (جامن) کی خوشبو‘ ایک ایسی خوبصورت کاوش اور پر خلوص پیشکش ہے جس کی مٹھاس بھری خوشبو میرے دل و دماغ کو تادیر معطر رکھے گی۔