چوتھی قسط:
میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ آج قرآن مجید کتابی شکل میں موجود ہے۔ قرآن مجید کو کتابی شکل میں کب لکھا گیا؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کتابی شکل میں نہیں تھا۔ قرآن مجید حضرت صدیق اکبر کے زمانے میں لکھا گیا۔ رسول اللہ کے زمانے میں حفاظ بہت زیادہ تھے۔ جنگِ یمامہ میں ستر حفاظ شہید ہوئے تھے۔ اس وقت کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔جب حضرت صدیق اکبر کے زمانے میں جنگوں میں حفاظ صحابہ کرام کی شہادت کی خبریں کثرت سے ملنے لگیں تو حضرت عمر کو خطرہ محسوس ہوا کہ حفاظ شہید ہوتے جا رہے ہیں۔ قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں ہے تو کل کہیں کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے، کوئی الجھن نہ پیدا ہو جائے، چنانچہ آپ حضرت صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا خلیفہ رسول اللہ! مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ حفاظ شہید ہوتے جا رہے ہیں، اور قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں ہے تو کل کوئی پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھوا کر ریکارڈ میں رکھ لیں۔
حضرت صدیق اکبر نے پہلے تو انکار کیا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، میں بھی نہیں کرتا لیکن حضرت عمر نے کہا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ضروریات ضروریات ہوتی ہیں اور خطرات خطرات ہوتے ہیں۔ ایک نسخہ لکھوا کر رکھ لیں، اگر خدانخواستہ کوئی الجھن پیش آ جائے تو ہم کیا کریں گے؟ بالآخر حضرت صدیق اکبر مان گئے اور حضرت زید بن ثابت انصاری، جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بھی وحی کے سب سے بڑے کاتب تھے، ان کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ عہدِ نبوی میں وحی لکھا کرتے تھے۔ اب قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھ دیں۔ پہلے ان کو بھی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ لکھوانا ہوتا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود لکھوا لیتے۔ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ عمر نے تجویز دی ہے، میری سمجھ میں آگئی ہے، لہٰذا آپ ایک نسخہ لکھ دیں، چنانچہ حضرت زید بن ثابت نے قرآن مجید کا سب سے پہلا نسخہ لکھا۔
مسجد نبوی میں ایک ستون کا نام ہے ”اسطوانة المصحف” قرآن مجید کا ستون۔ اسے ”اسطوانة المصحف” اس لیے کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر نے حضرت زید بن ثابت سے قرآن مجید کا ایک مکمل نسخہ لکھوا کر اس ستون کے ساتھ رکھوا دیا تھا اور اعلان کر دیا تھا کہ جس کو قرآن مجید کی کسی آیت یا سورت کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو وہ یہاں آکر اپنا شبہ دور کر لے، یہ معیاری نسخہ ہے۔ حضرت صدیق اکبر کے دور میں اور حضرت عمر کے دور میں وہ نسخہ وہاں موجود رہا۔ لوگ آتے تھے، تسلی کرتے تھے اور پھر وہاں رکھ دیتے تھے اور اس بات کی بھی ضمانت تھی کہ قرآن مجید کا نسخہ لکھا ہوا موجود ہے، لہٰذا خطرے کی بات نہیں ہے۔ اگر کسی کو کسی آیت کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو وہ یہاں سے دور کر سکتا ہے۔ حضرت عمر کی شہادت کے بعد یہ نسخہ ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس ان کی امانت میں چلا گیا۔
حضرت عثمان کے دور میں قرآن مجید دوبارہ لکھا گیا۔ دوبارہ لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اس کا بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ پہلا نسخہ لکھوانے کا باعث حضرت عمر بنے تھے اور دوسرا نسخہ لکھوانے کا باعث حضرت حذیفہ بن الیمان بنے۔ وہ حضرت عثمان کے زمانے میں آذربائیجان کے گورنر اور کمانڈر تھے۔ آذربائیجان ایران اور روس کے درمیان ایک ریاست ہے۔ اپنا لشکر لے کر سفر پر جا رہے تھے، راستے میں ایک جگہ قیام کیا۔ ایک روز صبح کی نماز پڑھی اور اس کے بعد اپنے معمولات میں مشغول تھے کہ تھوڑی دیر بعد ساتھ والے خیمے میں جھگڑا ہوگیا۔ آواز سن کر وہاں گئے اور دیکھا کہ دو آدمی گتھم گتھا ہیں، آپ نے ان کو چھڑایا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے، خیر تو ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں قرآن مجید صحیح پڑھ رہا تھا اور یہ مجھے غلط بتا رہا تھا۔ حضرت حذیفہ نے دوسرے آدمی سے پوچھا، تو اس نے کہا کہ یہ غلط پڑھ رہا تھا اور میں صحیح بتا رہا تھا، یہ میری بات مانتا ہی نہیں تھا، اس پر ہمارا جھگڑا ہو گیا۔ان کا جھگڑا کس نوعیت کا تھا؟ اس کو سمجھنے کے لیے دیکھیں کہ آپ بڑے قراء سے جب سنتے ہیں تو وہ مختلف قراء ات میں قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ یہ قراء ات کا اور لغت کا اختلاف ہوتا ہے، قرآن مجید میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ایک جملہ اس طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے اور دوسری طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ان جھگڑنے والوں کا بھی اسی نوعیت کا اختلاف تھا۔ لڑنے والے دونوں عجمی تھے۔ زبان والوں کو تو لفظ کا فرق محسوس نہیں ہوتا، جبکہ دوسروں کو محسوس ہوتا ہے۔میں اس کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ ”پشتو” اور ”پختو” زبان والوں کے نزدیک ایک ہی ہے، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، صرف تلفظ کا فرق ہے لیکن دوسروں کے لیے یہ فرق ہے کہ پختو اور چیز ہے اور پشتو اور چیز ہے۔ اس طرح بہت سے چھوٹے موٹے فرق زبان والوں کے لیے کچھ نہیں ہوتے لیکن غیر زبان والوں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔میں اس کی ایک پنجابی کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک لفظ ہے ”کیویں”۔ ہمارے گوجرانوالہ میں یہ لفظ اس طرح بولا جاتا ہے کہ ”ایہہ گل کیویں اے یار”۔ شکرگڑھ میں بولتے ہیں ”کداں اے”۔ جہلم میں بولتے ہیں ”کنجو اے”۔ ٹیکسلا میں بولتے ہیں ”کیاں”۔ بعض جگہ بولتے ہیں ”ککن”۔ اب کیویں، کداں، کنجوں، کیاں، ککن، یہ زبان والوں کے لیے ایک ہی لفظ ہے، ان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن کسی دوسری زبان والے کو کہیں گے تو وہ کہے گا کہ یہ ایک لفظ نہیں ہے۔ان کا بھی کسی ایسی ہی بات پر جھگڑا تھا۔ ایک کہتا تھا یہ غلط پڑھ رہا تھا اور دوسرا کہتا کہ یہ مجھے غلط بتا رہا تھا۔ دونوں کی دلیل بھی بہت مضبوط تھی۔ ایک نے کہا میں کیسے غلط پڑھ سکتا ہوں، میں نے یہ آیت حضرت ابو الدردائ سے شام میں خود پڑھی تھی، انہوں نے خود مجھے اس طرح پڑھائی تھی، میرا استاد کیسے کمزور ہو سکتا ہے؟ دوسرے نے کہا نہیں جناب! میں نے یہ آیت حضرت عبد اللہ بن مسعود سے کوفہ میں پڑھی تھی اور انہوں نے مجھے یوں پڑھائی تھی۔
حضرت حذیفہ نے ایک سے کہا کہ پڑھو کیا پڑھتے ہو؟ اس نے پڑھا تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک پڑھ رہے ہو۔ دوسرے سے کہا کہ اب تم پڑھو۔ اس نے پڑھا تو اسے بھی فرمایا کہ تم بھی ٹھیک پڑھ رہے ہو۔ فرمایا کہ آپس میں مت جھگڑو، کوئی مسئلہ نہیں ہے، دونوں طرح پڑھنا درست ہے۔ گویا پختو اور پشتو کا فرق ہے۔(جاری ہے)