جامعة الشیخ یحییٰ المدنی میں ایک یادگار دن!

جامعة الشیخ یحیی المدنی بہادر آباد کراچی کے بانی، مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کی دعوت پر ادارے کا وزٹ کیا۔ جامعة الشیخ یحیی المدنی کے شعبہ تخصصات کے 140طلبہ کو تحریر و تقریر کے فن پر ورکشاپ بھی کروائی۔ ہم نے ملٹی میڈیا پریزنٹیشن کے ذریعے طلبہ کو بتایا کہ لکھنے اور بولنے کے فن کی آج کے دور میں کتنی اہمیت ہے۔ آج فن تحریر و تقریر کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ حکومتیں اس کے احترام میں باجماعت کھڑی ہو جاتی ہیں۔

اکبر اعظم کے زمانے میں وسطی ایشیا کے کسی حکمران نے کہا تھا: مجھے اکبر کی تلوار سے اتنا خوف نہیں آتا جتنا کہ ابوالفضل کے قلم سے ڈر لگتا ہے۔ حضرت علی کا قول ہے: انسان ہر وقت اور ہر عمر میں علم و ہنر اور فن حاصل کر سکتا ہے۔ یونان کا مشہور فلسفی سقراط کہا کرتا تھا: مجھے ایک بستر اور ایک اچھی کتاب دے دی جائے، بس اور کچھ نہیں چاہیے۔ پڑھنا پڑھانا، لکھنا لکھانا اور صحافت ایک دلچسپ مشغلہ بھی ہے۔ انگریزی کی مشہور کہاوت ہے: لکھنا ایک مسلسل تخلیق کا عمل ہے۔ آپ نے کسی شخص کو نہیں سنا ہوگا کہ وہ یکایک بڑا لکھاری بن گیا۔ اس میدان میں برسوں مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے۔ کتابوں کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ ریڈرز ڈائجسٹ کے لکھاری برین کلیمس لکھتے ہیں: آپ نے متعدد لوگوں سے سنا ہوگا، میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ میں اس پر کتاب لکھنے والا ہوں، مگر آج تک ایسا کوئی بھی شخص کتاب نہیں لکھ سکا، اس لیے کہ لکھنا ایک مشکل، صبر آزما اور محنت طلب کام ہے۔ یہ ایسا شوق ہے جسے نبھانا مشکل ہی نہیں، بے حد مشکل ہے۔ ای بی وائٹ کو امریکا کے مقبول ترین مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: جو شخص لکھنے کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں ہو، وہ کچھ بھی لکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔

لکھنے کا سب سے اہم اصول یہی ہے کہ لکھنے کا وقت وہ ہے جب آپ کے ہاتھ میں قلم آجائے۔ آپ ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر مولانا ابوالکلام آزاد اس انتظار میں بیٹھے رہتے کہ انہیں احمد نگر کی جیل سے رہائی ملے گی، ایک وسیع و عریض لائبریری میسر آئے گی، آرام دہ بستر نصیب ہوگا اور صاف ستھرا کمرہ دستیاب ہوگا تو پھر ہی وہ قلم اٹھائیں گے۔ شاید اس صورت میں ہم غبارِ خاطر جیسی بے مثال کتاب سے محروم ہو جاتے۔ علامہ ابن تیمیہ کے دور کا ذرا اندازہ لگائیں۔ تاتاریوں نے کاشغر سے لے کر عراق تک اسلامی سلطنت کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ جان، مال، عزت آبرو بچانا ہی مشکل ہوگیا تھا۔ آپ دمشق پہنچے تو صحرائے گوبی کی آندھی وہاں بھی خاک اڑاتی آپہنچی۔ حالات نے قلم کے ساتھ تلوار اٹھانے پر مجبور کردیا۔ قلم و کتاب کے میدان کا شاہسوار شمشیر و سنان کے جوہر دکھانے لگا۔ جب تاتاریوں کو مار بھگایا تو سرکار نے ناک میں دم کردیا۔ زندگی کے آخری دو سال جیل میں گزرے، مگر قید و بند بھی انہیں کاغذ اور قلم سے دور نہیں کرسکی۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو ساڑھے تین سوکے لگ بھگ کتابیں لکھ چکے تھے۔ برصغیر میں دیکھیں تو امام شاہ ولی اللہ کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا رہا۔ آپ کے دور میں دہلی پر جاٹ، مرہٹے اور سکھ یکے بعد دیگرے طاقت آزمائی کرتے رہے۔ مغل حکمران اس خوف سے شہر ہی چھوڑ گیا تھا۔ پنجاب مغلیہ سلطنت کی عمل داری سے نکل چکا تھا۔ کتاب، قلم، تسبیح و مسجد چھوڑ کر خلافت بچانے کی ذمہ داریاں کندھوں پر آن پڑیں۔ شاہ عالم کو خطوط لکھ لکھ کر ہمت، جرات اور شجاعت کی ترغیب دیتے رہے۔ بادشاہ نہ مانا تو مشہور سپہ سالار نواب الدولہ کو ہمت دلانے لگے کہ وہ آگے بڑھیں۔ یہ منصوبہ بھی کام نہ آیا تو احمد شاہ ابدالی کو دعوت دے ڈالی۔ دس سال تک دہلی بغیر بادشاہ رہا اور امام شاہ ولی اللہ اسی دہلی میں بیٹھے قلم کے چراغ تیار کرتے رہے، اس لیے کوئی بھی لکھاری آئیڈیل ماحول، مثالی کیفیت اور آمد کے انتظار میں بیٹھا رہے گا توکبھی بھی نہیں لکھ پائے گا۔

ہم نے طلبہ کو بتایا کہ صحافت کے کل 32شعبے ہیں، ان 32شعبوں کی بنیاد یہ چار شعبے ہیں: رپورٹنگ، شوٹنگ، ایڈیٹنگ، رائٹنگ۔ ان چار شعبوں سے ہی یہ سارے شعبے نکلے ہیں۔ ان شعبوں میں سے ایک شعبہ مضمون نویسی ہے۔ پھر کالم اور مضمون کی بھی 17اقسام ہیں۔ اس ورکشاپ کی تفصیلات اور پریزنٹیشن آپ ہمارے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

ورکشاپ کے بعد جامعة الشیخ یحیی المدنی کے ناظم تعلیمات مولانا محمد آصف کاکاخیل نے بتایا کہ اس وقت ادارے میں 18مختلف شعبے ہیں۔ 350طلبہ اور 50سے زاید اساتذہ کرام ہیں۔ تخصص فی فقہ المعاملات، تخصص فی الدعوہ والارشاد، تخصص فی الفنون المعاصرہ، تخصص فی علوم الحدیث، تخصص فی اللغة العربیہ و الانجلیزیہ، تخصص فی التجوید و القرات کے 140علماء کرام بھی ہیں۔ عوام کی راہنمائی کیلئے دو مختلف رسالے ہیں۔ الفجر کے نام سے ایک سہ ماہی جریدہ بھی ہے۔ جامعة الشیخ یحیی المدنی کے سربراہ مولانا محمد یوسف صاحب نے بتایا کہ ہمارے مستقبل کے منصوبوں میں ایک بڑا پروجیکٹ شامل ہے، جس کے تحت وسیع وعریض اسلامک سینٹر، گرینڈ جامع مسجد، خواتین اور بچوں کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے وغیرہ ہوں گے۔ہمیں جامعة الشیخ یحیی المدنی میں وقت گزارکر، طلبہ سے گفتگو کر کے اور ادارے کی کارگزاری سن کر بہت اچھا لگا۔ آپ بھی اس ادارے کا وزٹ ضرور کیجئے گا اور جس طرح ممکن ہو تعاون کیجئے گا۔