معاہدات ابراہیمی۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

ابراہیمی معاہدہ ”اسرائیل اور کئی عرب ممالک میں تعلقات معمول پر لانے کیلئے طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ معاہدے سال 2020میں امریکا کی ثالثی میں طے پائے تھے۔ ان کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں امن اور تعاون کو فروغ دینا تھا۔ ابراہیمی معاہدے کو سال 2020میں طے کرتے وقت اس کے اہم فریق اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے۔ امن کے نام پر بدامنی پھیلانا کوئی امریکا اور اسرائیل سے سیکھے۔
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

اس میں مرکزی فریق اسرائیل تھا، جس کی ضرورت تھی کہ وہ عرب ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات پہلا عرب ملک تھا، جس نے ستمبر 2020میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔ متحدہ عرب امارات کے فوراً بعد بحرین اس میں شامل ہوا جبکہ (شمالی مسلم اکثریتی) جمہوریہ سوڈان اکتوبر 2020میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر رضامند ہوا۔ 5ویں فریق کے طور پر مراکش نے دسمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کر کے اس میں شراکت اختیار کی۔ ٹرمپ کی پہلی ٹرم میں امریکا نے بطور ثالث کردار ادا کرنے کے لیے اس معاہدے کے مذاکرات اور نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دوسری طرف مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں (1979 اور 1994) پر دستخط کر چکے تھے، لیکن انہوں نے بھی ابراہیمی معاہدے کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا۔

اس معاہدے کے تناظر میں فلسطین حقیقی فریق تھا، جسے اس معاہدے میں کسی طرح کی رائے دہی کے لیے شریک نہیں کیا گیا۔ ابراہیمی معاہدہ کثیرالجہتی معاہدہ نہیں تھا، بلکہ یہ الگ الگ دوطرفہ معاہدوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ہر عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ علیحدہ مذاکرات کر کے اپنے تعلقات کو معمول بنایا تھا۔ امریکا نے ان تمام معاہدوں کو ایک ہی عنوان ”ابراہیمی معاہدات” کے تحت پیش کیا، تاکہ اسیایک بڑی سفارتی کامیابی دکھایا جا سکے۔ بحرین اور اسرائیل نے 15ستمبر 2020کو UAEکے ساتھ ہی دستخط کر کے معاہدہ کنفرم کیا تھا۔ سوڈان اور اسرائیل نے اکتوبر 2020میں غیر رسمی طور پر معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے بعد سوڈان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا، جس کے بدلے امریکا نے سوڈان کو دہشت گردی کی حامی ریاست کی فہرست سے نکال دیا۔ مراکش اور اسرائیل نے 10دسمبر 2020کو معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا، جس کے بدلے میں امریکا نے مراکش کی جانب سے ”مغربی صحارا” پر مراکش کے ملکیتی دعوے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مذکورہ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ الگ طور پر معاہدے ہونے کی وجہ ہر مسلم ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی شرائط اور مفادات مختلف تھے۔ مثال کے طور پر مراکش کو مغربی صحارا پر امریکی حمایت چاہیے تھی، جبکہ سوڈان معاشی پابندیوں سے نجات چاہتا تھا۔ بحرین اور متحدہ عرب امارات کا مقصد اقتصادی و سفارتی تعلق اور سلامتی کے شعبے میں باہم تعاون کا قیام تھا۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تجارت اور سفارتی تعلقات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہوا۔ صرف مادی فوائد کے لیے فلسطین کاز کو نقصان پہنچانے کا عمل ایسی گرہیں جو کل کھولنے کے انہیں دانتوں کا استعمال کرنا پڑے۔

ستمبر 2020ء میں تشکیل پانے والے نام نہاد معاہدے ”ابراہم اکارڈ” کی بازگشت آج پھر سنائی دے رہی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد اسرائیلی بالا دستی کو تسلیم کرنا اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کر ناہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے نام پر مذکورہ معاہدے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرکے دراصل امت مسلمہ کو دھوکا دیا گیا ہے۔ اس کا نام ”معاہدۂ ابراہیم” اس لیے رکھا گیا کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان’ مسیحی اور یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے’ نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکین میں سے تھے’ بلکہ مسلمان تھے۔ اس معاہدے سے فلسطین کے حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، وہاں نسل کشی کا عمل ایک طے شدہ انداز سے جاری ہے۔

افسوس! وطنِ عزیز میں بھی بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہ اور اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہودی قاتل ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ حکومتِ وقت نے ایسا قدم اٹھایا تو پاکستانی قوم اس کی راہ میں بنیان مرصوص بن جائے گی اور مظلوم فلسطینیوں کے خون سے غداری نہیں ہونے دے گی۔ گریٹر اسرائیل کی راہ میں ایٹمی پاکستان رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے 1967ء میں پانچ عرب ریاستوں کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں صاف کہا تھا کہ ہمارے وجود کیلئے خطرہ صرف پاکستان ہے۔

ٹرمپ نے اپنی سابقہ مدتِ صدارت میں عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے اصول کیخلاف چھ دسمبر 2017ء کو مقبوضہ بیت المقدس کو قابض اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ پھر 14مئی 2018ء کو امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا گیا۔ ٹرمپ نے اس دن یہ کہا تھا کہ یہ اسرائیل کیلئے عظیم دن ہے۔ عرب اور خلیجی ممالک مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیں گے۔ اس سلسلے میں عوام کی جانب سے مزاحمت کوروکا جائے گا۔ بدلے میں ان عرب حکومتوں کو امریکا اور خطے میں اسرائیل کی جانب سے مکمل تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ اسرائیل جب ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اس کے کل رقبے (تقریباً پانچ ہزار مربع کلو میٹر) پر کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔ آج اسرائیل کا رقبہ 22ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 90لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تھیوڈور ہرتزل کی ”یہودی مملکت” نامی کتاب میں موجود صہیونی ریاست کے نقشے میں فلسطین’ اردن’ شام’ لبنان’ عراق اور کویت کے بیشتر علاقے جبکہ سعودی عرب کا بھی ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست کی حدود کو مدینہ منورہ تک وسیع کیے جانے کا مذموم پلان ہے۔ مصر سے صحرائے سینا’ قاہرہ اور سکندریہ کو بھی اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ عبارت ”اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک ہیں” اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی کندہ ہے’ جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ ہر دم کوشاں ہیں۔ تھیوڈور ہرتزل کی صہیونی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔ مغرب آج بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صہیونیت کا منصوبہ اس کے ہاں تشکیل پایا جو یہودیوں سے محبت کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اسرائیلی ریاست اسی محبت کا نتیجہ ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہوا’ اس کے پس پردہ مقاصد کیا تھے؟ مغرب نے جب یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین انعام کے طور پر تفویض کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا اس وقت یورپ میں جرمنی ایسا مقام تھا جہاں یہودی سب سے زیادہ آباد تھے۔ اس کے بعد امریکی سرزمین ان کی آماجگاہ بنی۔ یہ انعامات وہاں کیوں نہیں عطا کیے گئے؟ تاکہ وہ وہاں اپنا وطن تشکیل دے سکتے؟ فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے کا پس منظر اتنا مکروہ ہے جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں ملنا محال ہے۔

ابراہیمی معاہدہ کی بازگشت کی ابتدا تقریباً سو برس قبل خلافتِ عثمانیہ میں ہوئی۔ سلطان عبدالحمید کو یہودی سیموئیل کے ذریعے عالمی صہیونیت نے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے تمام قرضے اتار دیں گے اگر فلسطین میں یہودیوں کو الگ وطن بنانے کی اجازت دے دی جائے لیکن سلطان عبدالحمید نے یہ پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ اسی دجالی منصوبے کی خاطر پہلی اور دوسری جنگ عظیم برپا کرائی گئیں اور سلطنتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کر دیا گیا۔ جرمنی شکست کھا چکا تھا لیکن برطانیہ اور فرانس نے اسے اپنے درمیان جغرافیائی طور پر تقسیم نہیں کیا مگر پورا مشرق وسطیٰ فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لیا۔

صہیونی منصوبے کیلئے اقوام متحدہ کا وجود عمل میں لایا گیا تاکہ ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم سے اس ناجائز دجالی عمل کو قانونی شکل دی جا سکے۔ یاد رہے جب یہ منصوبہ پروان چڑھ گیا اقوام متحدہ کا وجود ختم کر دیا جائے گا۔ اسی مقصد کی بار آوری کیلئے نائن الیون جیسا ڈراما رچایا گیا تاکہ جو مسلم ممالک اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنیں انہیں ختم کیا جا سکے’ افغانستان’ عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی اور اب چونکہ اس منصوبے پر عملدرآمد کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے اس لیے مشرق وسطیٰ میں آگ پھیلا دی گئی ہے۔ اسرائیل کے نام پر مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر بڑی مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں جو گھناؤنا ترین ڈراما رچایا گیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی لیکن ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے، اب عالم یہ ہے لوگ اس ظلم کے خلاف بغاوت کے لیے کسی بھی وقت نکل کھڑے ہوں گے
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لئے