‘آرمیگا ڈون’ کا نظریہ اور فلسطین کی موجودہ جنگ

سب کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کے الزام میں عیسائی قوم گزشتہ ہزار سال سے یہودیوں کی جانی دشمن بنی رہی ہے لیکن افسو س ہے کہ اب خود عیسائی ہی اسرائیلی استحکام و استقلال کے یہودیو ں سے زیادہ بڑھ کر وکیل بن گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور یہودیوں کے تحفظ کے لیے ہمیں ان سے زیادہ بڑھ چڑھ کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ 1994ء میں جبکہ امریکی صدر ٹرومین نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر عیسائیوں کی مانند خود یہودی بھی اسرائیل کے قیام سے خوش نہیں تھے لیکن بااثر یہودیوں نے صدر ٹرومین کے کان بھر کر انہیں یہودیوں کا فوری ہمدرد بنا دیا۔

گزشتہ دو عشروں سے امریکا میں اب عیسائیوں کا ایک نیا مذہبی طبقہ پیدا ہوگیا ہے … ‘نَو جنم شدہ’ عیسائی! عیسائیوں کے ‘مبشراتی پادری’ (Evnegilacal Priests )اپنے ہم مذہبوں پر زور دے رہے ہیں کہ انجیلوں کی رو سے اسرائیل جب تک قائم و مضبوط نہیں ہوتا حضرت عیسیٰ کی دوبارہ واپسی اور عیسائیوں کی نجات ممکن نہیں ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ یہ مبشراتی عقیدہ بڑھتے بڑھتے تما م امریکا میں حاوی ہوگیا ہے یہاں تک کہ ان کے بعض صدور مثلاً ریگن، کارٹر اور بش بھی ا س عقیدے کے پُرجوش مبلغ بن گئے تھے یا بنے ہوئے ہیں۔ ان کے نئے عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انجیلوں کی رو سے یروشلم (بیت المقدس) میں ایک آخری خونی جنگ (Armaggedon ) برپا ہونی باقی ہے جس کو جلد از جلد بھڑکانا بھی ہماری مذہبی ذمے داری ہے۔ ان کے بقول ”خیر وشر کی اس جنگ میں اتنا خون بہے گا کہ گھوڑوں کی کمروں تک پہنچ جائے گا”۔ امریکی عیسائیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس جنگ کو اپنی زندگی ہی میں برپا ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ خواہش مند ہے کہ اپنے مسیحا عیسیٰ علیہ السلام کو وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور ان سے جنت کے اندر پہنچائے جانے کی سند زندگی ہی میں حاصل کرلیں۔

اگر کبھی ان ‘ایونجیلیکل (مبشراتی)’ پادریوں سے سوال کیا جا ئے کہ ان کا یہ منصوبہ کیا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کہلائے گا؟ تو سوال کرنے والے کا منہ وہ یہ کہہ کر بند کر دیتے ہیں کہ ”ہم بائبل کے عالم اور علوم دین کے ماہر ہیں اس لیے ہماری بصیرت کے مطابق خدا کا قانون امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قوانین سے بالاتر ہے”۔ یہ باتیں وہ گرجائوں اور ٹی وی چینلز پر کھلے عام کرتے ہیں مگر ان کا مواخذہ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ کو وہ جگہ جگہ سے بنیادوں سے کھودتے رہتے ہیں تاکہ ہیکل کا ڈھانچہ تلاش کیا جا سکے۔ اس ضمن میں وہ مصنوعی کارروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس تما م جنگی جنون اور نئے عقیدے کا تفصیلی جائزہ سابق صدر جانسن کی تقریر نویس ‘گریس ہالسیل’ نے اپنی کتاب Forcing God;’s Hand فورسنگ گاڈس ہینڈ میں کیا ہے جسے راقم نے ”خوف ناک جدید صلیبی جنگ” کے نئے نام سے شائع کیا ہے۔ ان نئے عقائد کا پرچار کرنے والے پادریوں کو مصنفہ (جو خود ایک عیسائی خاتون ہے)، طنزاً مفاد پرست عیسائی پادری کہتی ہے۔

سو ایسے متعصبانہ و سازشی پس منظر میں جہاں فلسطینی مسلمانوں کو زمین سے یکسر نیست و نابود کرنے کے لیے نئے نئے عقائد گھڑ لیے گئے ہوں، جہاں عیسائی خود یہودیوں سے بھی بڑھ کر یہودی ثابت ہو رہے ہوں او ر جو گروہ عالمی خونی جنگ کو ازخود جلد از جلد برپا کروانا چاہتا ہو، فلسطینیوں اور مظلوموں کے مفاد کا خیال کس کو رہتا ہے؟ عیسائی، امریکی اور مسلم جب سارے ہی حکمران غاصب و قبضہ گیر یہودیوں کے آلۂ کار بن جائیں تو فلسطین کے سوال کو تو ازخود ہی گم ہو جاتا ہے۔ زمانے کا یہ کیسا ستم ہے کہ وہ عرب حکومتیں جو کبھی اسرائیل کی بدترین دشمن اور فلسطینیوں کی سدا مددگار ہوا کرتی تھیں، عالمی جنگی گروہ صیہونیوں کے آگے اب وہ بھی سجدہ ریز ہوگئی ہیں۔

معلوم رہنا چاہیے کہ عیسائی دنیا پر جب تک پاپائوں کا طاقت بھرا راج رہا، یہودیوں پر بھی ان کا عتاب بے حد ظالمانہ رہا۔ یہی پوپ تھے جنہوں نے اپنے پیغمبر کا قاتل قرار دیتے ہوئے یہودیوں کو زندگی بھر معاف نہیں کیا۔ ایک ہیبت تھی، بے بسی تھی جس کے ساتھ یہودی بھی اپنی موت کی دعائیں کرتے تھے لیکن انہیں کوئی راہ سجھائی ہی نہ دیتی تھی۔ لیکن بیسویں صدی کا آغاز کیا ہوا کہ وقت کا پہیہ بالکل الٹ چلنا شروع ہوگیا۔ کیتھولک پادریوں کی آہنی گرفت مذہب و حکومت پر ڈھیلی پڑنی شروع ہوگئی۔ لوگ بھی ان کے شکنجے سے نکلنے لگے۔ خوف بھی دور ہونے لگا۔ اسی کے بعد یہودیوں نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کئے اور اپنے دشمن پادریوں کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ پہلے حال یہ تھا کہ یہودی پوپس سے دبکے رہتے تھے لیکن اب یہ ہوا کہ خود پادری بھی یہودیوں کے رحم و کرم پر آگئے۔ ادھر ایک دوسرا موڑ اور بھی آیا۔ پادریوں کے بالمقابل ایک دوسری عیسائت ‘پروٹسٹنٹس’ کے نام سے آ کھڑی ہوئی جو دراصل یہودیوں ہی کی ایک نئی شاخ تھی۔

اس دور میں جو عیسائی بڑھ چڑھ کے یہودیوں اور اسرائیل کی حمایت میں دیوانہ ہوتے جا رہے اور یہودیوں سے زیادہ مسجداقصیٰ کو ڈھانے کی دہائی دے رہے ہیں، وہ دراصل یہی پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں جو امریکا میں کثرت سے ہیں۔ واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی آخری وقت میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خونی جنگ ‘اَلملحمة الکبریٰ’ کی پیش گوئی کی ہے جس میں مسلمانوں کا خون بہت زیادہ بہے گا۔ کئی عیسائی طاقتیں اس جنگ میں ان کے خلاف متحد ہوں گی۔ ابتدا میں تو مسلم و عیسائی دونوں قوتیں باہم مل کر کسی اور قوت سے جنگ کر رہی ہوں گی لیکن اچانک مسلمانوں سے غداری کر کے عیسائی الٹا انہی کے خلاف جنگ چھیڑ دیں گے۔ تاہم نبوی پیش گوئی کے مطابق آخری فتح بہرحال مسلمانوں ہی کی ہوگی۔ ادھر جیسا کہ آپ نے اوپر مطالعہ کیا، اسی طرز کی مذکورہ بڑی و خونی جنگ کی پیشین گوئی انجیلی صحیفوں میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں جنگیں ایک ہی ہیں۔ عیسائی اس جنگ کو ‘آرمیگاڈون’ کہتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ‘الملحمة الکبریٰ’ (شدید ترین خونی جنگ) قرار دیا ہے۔