پاکستان میں سیاحت: ایک جمالیاتی سانحہ

ہم بغرض سیاحت عمان بھی گئے ہیں، سعودیہ بھی اور یو اے ای میں بھی تقریباً سیاحت کے سارے نہیں تو اکثر مقامات دیکھ چکے ہیں۔ ہر جگہ کی اپنی خصوصیت، جداگانہ ماحول اور الگ حسن و جمال ہے۔ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است۔ جو عنصر مگر ان سب ممالک میں مشترک نظر آیا وہ امن و امان تھا، سیاحوں کو فراہم کردہ سہولیات تھیں، بہترین سڑکیں اور شفاف ٹریفک نظام تھا۔ ان سارے مقامات میں مگر اپنے وطن عزیز پاکستان جیسا قدرتی حسن اور دلفریب مناظر بہت کم دیکھنے کو ملے۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی خاموش وادیوں میں، پہاڑ یوں سر اٹھائے کھڑے ہیں جیسے زمین نے اپنے خواب آسمان پر ٹانک دیے ہوں۔ دریا ایسی دھن بکھیرتے ہیں جیسے کسی اَن دیکھے ساز پر قدرت نے انگلیاں رکھ دی ہوں۔ فضائیں ایسی معطر کہ جیسے سانس لینا عبادت معلوم ہو۔ ایسا پاکستان جو تصویروں میں بستا ہے، شاعری میں لہکتا ہے، مگر حقیقت میں زخم خوردہ ہے، ویران اور بے سہارا ہے۔ سیاحت جو دنیا کی معیشتوں میں روح کا درجہ رکھتی ہے، ہمارے ہاں بے زبان لاش کی صورت پڑی حسن کی بے قدری کا نوحہ کر رہی ہے۔ دنیا جن مناظر کی زیارت کے لیے میلوں کا سفر کرتی ہے ہمارے پاس وہ نظارے زمانے سے موجود ہیں، مگر ہم نے انہیں قابل دید ‘مقام’دینے کی بجائے ‘مقامِ عبرت’ بنا دیا ہے۔ گلگت، ہنزہ، سوات، مری، ناران کاغان، سرن ویلی، آزادکشمیر اور مری کی وہ بل کھاتی راہیں صرف خوبصورتی ہی نہیں، درد کا فسانہ بھی سناتی ہیں کہ جہاں سڑکیں ہیں مگر راستہ نہیں، ہوٹل ہیں مگر پناہ نہیں اور درختوں کی چھاؤں ہے مگر حفاظت کا سایہ کہیں نہیں۔ جب بھی ہر برس گرمی آتی ہے، سورج دہکتا ہے اور لوگ خنکی کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں تو ہر سال خبروں میں وہی سرخیاں ابھرتی ہیں کہ: ٭برفانی تودہ گرنے سے پانچ سیاح جاں بحق ٭دریا میں کار بہہ گئی، خاندان لاپتہ ٭سیلاب اتنے افراد بہا کر لے گیا ٭ہوٹل میں آتشزدگی، انتظامیہ غائب ٭گاڑی کھائی میں جا گری!

یہ صرف خبریں نہیں بلکہ وہ نظمیں ہیں جن کا ہر مصرع ایک چیخ ہے، ایک سوال ہے۔ میں خود کو ایک لمحے کے لیے بھی ان پندرہ افراد کے کسی باپ، ماں یا خاندان کے فرد کی جگہ پر رکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو گزشتہ دنوںدریائے سوات کے ریلے میں بہہ کر ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ واللہ! ان کے ڈوبنے کا منظر دل چیر کر رکھ دیتا ہے۔ بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاح خود بے احتیاطی کرتے ہیں۔ جی بالکل درست ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایڈونچر کے شوقین لوگ کس ملک میں نہیں پائے جاتے؟ کوئی انوکھا تجربہ کرنے کی خواہش بھی ہر جگہ بہت سوں کی ہوتی ہے، کسی خطرناک ایکٹیویٹی کی جرأت بھی بعض لوگ کرنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ سیاحتی مقام سے ناواقف بھی ہوتے ہیں، کچھ ضرورت سے زیادہ دلیر بھی ہوتے ہیں اور کچھ ضروری شعور سے عاری بھی ہوتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ ہر ملک میں بہت کرنا چاہتے ہیں لیکن جہاں جس حرکت سے ان کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو، ریاست وہاں ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں اپنی من مانی یا کوئی خطرناک حرکت کرنے نہیں دیتی۔

سلطنت عمان میں جبل اخضر ایک معروف بلند و بالا پہاڑ ہے جہاں لوگ سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں۔ پہاڑ کے دامن ہی میں ایک چیک پوسٹ ہے جہاں سے پولیس فقط فوربائی فور گاڑیوں کو ہی آگے جانے دیتی ہے، کیونکہ پہاڑ سے واپس اُترتے وقت عام گاڑی کو کنٹرول کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ایسا صرف سیاحوں کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے۔ یقینا سیاحوں کی غفلت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہاڑوں کی سنگینی کو ہلکا لینا، موسم کی خبروں کو نظر انداز کرنا اور فطرت کے آگے بے خوف چل پڑنا اکثر جان کا ہنسی میں سودا بن جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ریاست نے ان کے قدموں کے نیچے کوئی قابل ذکر سنگ میل رکھا ہے؟ کیا ہمارے ہاں بھی چیکنگ کا ایسا کوئی نظام ہے؟ کیا ہر وادی میں مناسب جگہ پر خطرات سے خبردار کرنے کے لیے کوئی بورڈ لگا ہے؟کیا ہر سیاحتی مقام پر آگاہی دینے اور روکنے ٹوکنے کے لیے رضاکار موجود ہوتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر صرف عوام کو موردِ الزام ٹھہرا دینا خود ایک المیہ ہے۔

سیاحت فقط ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ دنیا نے اس کو صرف حسن کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معیشت کی ترقی کا زینہ بھی بنایا ہے۔ دبئی کی بلند عمارتیں ہوں یا سعودی اور عمان کی وادیاں، ہر جگہ سہولت، تحفظ اور منصوبہ بندی بنیادی اصول رہے ہیں۔ دیگر ممالک کی بنسبت ہم زیادہ اس بات کے ضرورت مند ہیں کہ سیاحت کو اپنی معیشت کا ایک اہم سبب بنائیں۔ اگر ہم صرف سیاحتی مقامات پر سڑک، بجلی، پانی، نیٹ اور ریسکیو سروس مہیا کر دیں، اگر ہم مقامی نوجوانوں کو تربیت دے کر سیاحت کا محافظ بنا دیں، اگر ہم فطرت کے حسن کو برباد کرنے کے بجائے اس کی حرمت کے محافظ بن جائیں تو سیاحت صرف آمدن کا ذریعہ نہیں اپنے وطن سے محبت کا اظہار بھی بن سکتی ہے۔ خدارا! رب کے عطا کئے ہوئے اس حسن کو تنہا مت چھوڑیں۔ اللہ عزوجل نے ہمارے پیارے وطن کو جو قدرتی حسن عطا فرمایا ہے اس کی ناقدری مت کیجیے، یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ پہاڑ، یہ چشمے، یہ فضائیں، یہ سب مانگتے ہیں کہ انہیں سمجھا جائے، سنوارا جائے، محفوظ کیا جائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمارے ملک کے حسن کی صرف تصویریں ہی دیکھے گی، حقیقت میں وہاں کچھ نہ ہو گا۔ نہ دریاؤں کے نغمے، نہ ہواؤں کی سرگوشیاں اور نہ ہی برف پر پڑتی دھوپ کا عکس۔ سیاحت صرف سفر نہیں، ایک شعور ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں قومیں خود کو دیکھتی ہیں اور دوسروں کو دکھاتی ہیں۔ اگر ہم نے اس آئینے کو دھندلا رکھا تو ہماری شناخت بھی مٹتی جائے گی۔ جی ہاں … بالکل خاموشی سے، بے آواز، بے نشاں۔