جنگی محاذ پر بے پناہ نقصان کروانے کے بعد بھارت کو پاکستانی ریاست کی بہترین سفارتکاری کی بنا پر دنیا جہاں میں رسوائیوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاک بھارت حالیہ جنگ میں جہاں پاکستانی افواج نے بھارتی سینا کا غرور خاک میں ملایا وہیں پر پاکستانی وزارتِ خارجہ بہترین سفارتکاری کے ذریعے بھارت کو ہر خارجی و سفارتی محاذ پر شکست خوردہ کررہی ہے۔ حالیہ دنوں میں درج ذیل خارجہ اُمور میں ہونے والی پیشرفت قابل تحسین ہے۔
٭دوست و برادر ممالک سے تعلقات: ریاست پاکستان کے اپنے دوست و برادر ممالک سے تعلقات نئی جہتوں کو چھو رہے ہیں۔ چین، ترکیہ، روس، سعودی عرب، بنگلادیش، ایران، سنٹرل ایشیائی ممالک اور مشرق وسطیٰ ممالک اور خصوصاً امریکا کے ساتھ تعلقات بہترین طریق سے آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امید یہی کی جارہی ہے کہ دوست و برادر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات معاشی شراکت داری میں تبدیل ہوں گے۔
٭شنگھائی تعاون تنظیم: چین کے شہر شان ڈونگ میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء دفاع کے اجلاس میں بھارت پہلگام دہشت گردی میں پاکستان کے ملوث ہونے کا اپنا کیس ثابت نہ کرسکا جبکہ چین’ روس اور ایران نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور بلوچستان میں بدامنی کا بھارت کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس سلسلے میں اجلاس کا باقاعدہ اعلامیہ تیار ہوا جس پر بھارت نے دستخط کرنے سے انکار کیا۔ مبصرین اور ملکی و غیرملکی میڈیا کی جانب سے شنگھائی کانفرنس کے اعلامیہ کو بھارت کی سبکی اور مات سے تعبیر کیا جارہا ہے اور اسے پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کانفرنس میں پاکستانی مقدمہ انتہائی احسن انداز سے پیش کیا، جس کی بدولت کانفرنس کے شرکا نے خطے میں امن و استحکام اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کاوشوں کو نہ صرف سراہا بلکہ بھارت نقطہ نظرکی دھجیاں بھی اُڑا دیں۔ یاد رہے بھارتی وزیر دفاع نے خواجہ آصف کے خطاب کے بعد دوبارہ سے بات کرنے کی اجازت طلب کی مگر کانفرنس انتظامیہ نے اُن کی درخواست کو مسترد کردیا۔
٭اقوام متحدہ سلامتی کونسل: اِس وقت پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رُکن ہے۔ بطور رُکن پاکستان نے ہر اہم موقع پر اپنا کلیدی کردار ادا کیا چاہے غزہ کا معاملہ ہو یا پھر ایران، اسرائیل جنگ۔ ماہ جون میں پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی کا نائب چیئرمین اور طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے قائم نگران کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ بظاہر یہ معمول کی تعیناتیاں ہیں مگر ان تعیناتیوں پر بھارتی ریاست سیخ پا ہے۔ یقینی طور پر یہ تعیناتیاں بھارتی ریاست کی پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزامات کو مسترد کیا جانا ہے وہیں پر دہشت گردی کے خلاف پاکستانی ریاست کے غیر متزلزل اقدامات کو پوری دنیا کی جانب سے تسلیم کیا جانا بھی ہے۔
٭ثالثی کی مستقل عدالت: ہیگ میں قائم کورٹ آف آربٹریشن یعنی ثالثی عدالت نے سندھ طاس معاہدے پر اپنے ایک فیصلے میں واضح کیا ہے کہ انڈیا اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ ثالثی عدالت کے حالیہ فیصلے کا جہاں پاکستان نے خیرمقدم کیا ہے وہیں بھارت نے اسے مسترد کیا ہے۔ 27جون کو فیصلے میں ثالثی عدالت نے کہا کہ کسی ایک فریق کی جانب سے ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کے بعد لیا گیا یکطرفہ فیصلہ عدالت کے دائرہ اختیار کو متاثر نہیں کرتا۔ اپنے فیصلے میں ثالثی عدالت نے کہا کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اقدام عدالت کی قانونی حیثیت پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے مزید کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں اسے معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں اور نہ ہی کوئی فریق یکطرفہ طور پر تنازعات کو حل کیے جانے کے عمل کو روک سکتا ہے۔ ثالثی عدالت کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام عدالت کی خودمختاری یا دائرہ اختیار سماعت کو محدود نہیں کرسکتا۔ یاد رہے 1960ء میں پاکستان و بھارت نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے ورلڈ بینک کی ثالثی میں مذاکرات کے بعد سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد وادیٔ سندھ کے دریاؤں کے پانی کو دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا تھا۔ تب سے اب تک دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65برس سے اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ تاہم رواں برس اپریل میں انڈیا نے پہلگام حملے کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یقینی طور پر بھارت کو اس محاذ پر بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔