غریب سیاح۔ ملبوں میں دب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے

خیبر پختونخوا میں سوات جیسی خوبصورت اور دلفریب وادی بھی موجود ہے۔ جس کو خوبصورتی اور رعنائی کی وجہ سے ایشیا کا سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے سیاحوں کی یہ جنت جہنم میں تبدیل ہو گئی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوامِ عالم نے ہنگامی پالیسیاں بنا لی ہیں۔ جدید ترین سیٹلائٹ سسٹمز اور ایمرجنسی الرٹس سے عوام کو گھنٹوں پہلے خبردار کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں نہ کوئی وارننگ سسٹم ہے، نہ انخلا کا منصوبہ، نہ ہی کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی مشق یا تربیت اور نظام۔ سوات میں حال ہی میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک ”قدرتی حادثہ” نہیں بلکہ بدانتظامی، مجرمانہ غفلت اور ریاستی ناکامی کی ایک دلخراش مثال ہے۔

سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے گزشتہ بارہ برسوں میں سیاحتی مقامات پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ہر سال اربوں روپے کے ترقیاتی بجٹ کہاں خرچ ہو جاتے ہیں؟ کیا ان بجٹوں سے عوام کی جانوں کے تحفظ کی کوئی سبیل نہیں نکالی جا سکتی؟ کیا سیاحوں کے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی صورت میں مقامی پولیس یا اداروں کو کوئی الرٹ جاری کیا گیا کہ اس صورت میں انہیں کیا کارروائی کرنی ہے؟ اس سے بڑھ کر کیا کبھی کوئی ایمرجنسی رسپانس فورس تیار کی گئی کہ خطرنا ک صورتحال میں کس ادارے نے کیا کرنا ہے؟ کیا اس سیاحتی سیزن کے لیے صوبائی یا مرکزی حکومت یا ریسکیو ادارے تین’ چار ہیلی کاپٹرز سوات میں الرٹ رکھ سکے یا ریسکیو کیلئے بڑی کشتیوں کا انتظام کیاگیا۔ جب ان علاقوں میں سیاحت سے پیسہ کمایا جاتا ہے تو مقامی معیشت اور سیاحوں کو بچانے کیلئے ادارے اور حکمران کیوں کوشش نہیں کرتے؟ سیاحت سے صوبائی حکومت کو اربوں روپے ٹیکس ملتا ہے جس پر حکام کی عیاشیاں چل رہی ہیں۔ اکثر حکمران مشکل میں گھرے عوام کیلئے ہمدردی کے ڈرامے رچاتے ہیں۔ دکھ تبھی ہوتا ہے جب ان کا کوئی اپنا تکلیف میں ہو۔ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول میں 140سے زائد بچے شہید کر دیے گئے تو وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان اکٹھے پشاور گئے تھے۔ وہ دونوں ایک اجلاس میں شریک تھے ابھی بچوں کی لاشیں ہسپتال میں رکھی تھیں اور والدین پاگلوں کی طرح بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے تو سیاستدان جگتیں اور قہقہے لگا رہے تھے۔ یوٹیوب پر اس دور کی وڈیو دیکھ لیں۔ اس دن احساس ہوا کہ اپنے اور دوسروں کے بچوں کے غم میں کتنا فرق ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حادثات کو روکا نہیں جا سکتا لیکن تدابیر سے حادثات کے نقصانات کو کم تو کیا جا سکتا ہے۔ قومیں حادثات سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں مگر ہم سیکھنے اور بچاؤ کے اقدامات کی بجائے بیان بازی کرتے ہیں۔ سوات میں غیرقانونی تعمیرات حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ملی بھگت سے تعمیرات کی اجازت دی جاتی ہے جس کی سزا عوام اپنی قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کی صورت میں بھگتتے ہیں۔ سوات میں 18افراد کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے نے پورے ملک کو غمزدہ کر دیا’ ہر سال کوئی نہ کوئی ایسا دل خراش واقعہ پیش آتا ہے جس میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ موجودہ اندوہناک واقعے پر بھی کچھ لوگ خیبرپختونخوا حکومت کا دفاع کر رہے ہیں کہ حکومت کا کیا قصور ہے۔ علی امین گنڈاپور کا یہ کہنا کہ کیا وہ وہاں جا کر تمبو لگائیں؟ کتنے دلوں کو زخمی کر گیا۔ ان کا لہجہ بتا رہا تھا، جیسے عوام کیلئے تمبو لگانا گھٹیا کام ہے لیکن انہی عوام کے ووٹوں سے وزیراعلیٰ بننا اچھا لگتا ہے۔

خیبرپختونخوا کے ریسکیو ادارے کا عملہ’ گاڑیاں حتیٰ کہ ایمبولینسز سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی جاتی رہی ہیں مگر اس ادارے کے اصل مقصدکیلئے نہ عملہ دستیاب ہے’ نہ ریلیف کیلئے وسائل ہیں۔ برسوں سے صوبے میں ایک ہی جماعت حکمران ہے مگر انتظامات ندارد۔ پے در پے ناخوشگوار واقعات کے بعد انتہائی ضروری ہے کہ وفاق کی سرپرستی میں ایک ایسی قومی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس ٹاسک فورس کی اولین ذمہ داری ملک بھر میں شہریوں کی جانوں کو محفوظ بنانا ہو۔ اس فورس کو جدید آلات اور تربیت یافتہ افرادی قوت سے لیس کیا جائے تاکہ کسی بھی آفت کی صورت میں فوری اور مؤثر کارروائی ہو سکے۔

ماضی و حال کی صورت حال کا خلاصہ ”ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا” کا مصداق ہے۔ یہ واقعہ، اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک عوام کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ انسانی جانیں ان کے لیے محض ایک عدد ہیں، نہ دکھ، نہ شرمندگی، نہ اصلاح کی کوشش اور نہ کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبوں میں دب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے

بے حس رہنما ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف بیانات جاری کرتے اور دو تین اہلکاروں کی ”معطلی” کو کافی سمجھتے ہیں۔ اگر واقعی ان میں انسانیت کی رمق باقی ہے اور وہ عوام کو انسان سمجھتے ہیں، تو تمام سیاحتی مقامات پر جدید وارننگ سسٹمز نصب کریں ٭ضلعی انتظامیہ کو تربیت دی جائے کہ وہ ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دے سکے۔ ٭ایمرجنسی ہاٹ لائنز اور موبائل ایپ کے ذریعے سیاحوں کو بروقت معلومات فراہم کی جائیں۔ ٭سیاحتی مقامات پر ریسکیو سروسز، ابتدائی طبی امداد اور ہیلی کاپٹر ریسکیو یونٹس ہر وقت الرٹ رکھے جائیں۔ ٭قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسی اور نیشنل رسپانس یونٹ تشکیل دیا جائے۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے دور میں پنجاب کارڈیالوجی میں ایک مرتبہ دوا کی غلط مقدار پر مریضوں کی طبیعت خراب ہوئی۔ چند دنوں میں مسئلے کی جڑ تک پہنچا گیا اور غفلت کے باعث پیش آنے والا حادثہ پنجاب کو فرانزک لیب کا تحفہ دے گیا۔ ڈینگی مچھر پر عوام کو لاجواب آگاہی دی گئی۔ زینب قتل کیس کو دن رات ایک کر کے حل کیا گیا اور عوام کو ایسے معاملات پر ایپ کا تحفہ دیا گیا۔

خواجہ سعد رفیق کی ٹویٹ کے یہ الفاظ ”نشتر” بن کر دل میں کچوکے لگانے ہیں۔ ‘دریائے سوات میں طوفانی لہروں میں گھرے بے یارو مددگار اٹھارا افراد کا یکے بعد دیگرے بہہ جانا قیامت خیز المیہ ہے، انہیں ڈوبتا دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے، اتنی بے چارگی، اتنی بے بسی، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو ڈوبتے دیکھنا اور اپنی باری کا انتظار کرنا، اتنی اذیت۔ الامان الامان… المناک سانحات کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے لیکن کسے فرق پڑتا ہے؟ وطن عزیز میں شرف انسانیت کی تذلیل اور انسانی زندگی کی بے وقعتی کے ہولناک واقعات دیکھ کر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی… دہکتے آتش فشاں پر سوار اشرافیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوامی اضطراب کا لاواپک رہا ہے، خصوصاً نوجوانوں میں حدت اور شدت روز بروز بڑھ رہی ہے، جس دن یہ لاوا پھوٹ پڑا سارا نظام جلا ڈالے گا۔”

جو آنکھیں تماش بین بنی رہیں، جو ہاتھ بے حس ہو کر جھولتے رہے، جو زبانیں خاموش رہیں، وہ سب مجرم ہیں… یہ قیامت خیز لمحے یکایک نہیں آتے، یہ برسوں کی بے حسی، دہائیوں کی کوتاہی اور صدیوں کی غفلت کے بعد اتے ہیں… ہمارے ہاں ریاستی ڈھانچہ ہر سانحے کے بعد ماتمی بیان دیتا ہے، ایک رسمی تعزیت، ایک دکھاوے کا نوحہ… پھر سب کچھ معمول پر آجاتا ہے۔ نہ کوئی پالیسی، نہ اصلاح، نہ تدبیر ۔ سیدنا عمر فاروق کے دور میں اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جاتا تو خلیفہ خود کو جواب دہ سمجھتے… آج انسان پانی میں ڈوب رہے ہیں اور حکمران صرف اظہارِ افسوس کر رہے ہیں۔ ماضی کے آئینے میں سانحات کی ایک لمبی قطار ہے… مشرف دور کا زلزلہ ہو یا سیلابوں کی تباہ کاری، سانحات کے بعد صرف ایک منظر بار بار دوہرایا گیا، ریاست کی ناکامی… نظام اتنا ناپائیدار ہو چکا ہے کہ، ہر دن قیامت کا منظر پیش کرتا ہے… سرکاری ادارے صرف کاغذی کارروائی کے لیے ہیں۔ انسانی جان کے تحفظ کے بغیر کوئی ریاست ریاست نہیں، فقط ایک سرزمین ہے جس پر طاقتور قابض ہو چکے ہیں۔