مخصوص نشستوں کے فیصلے سے حکومت کی آنکھیں چمک اٹھی ہیں، دل ابلیوں اچھلنے لگا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلے سے بڑے میاں کی پارٹی کو پنجاب میں اور حکومتی اتحاد کو مرکز میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوا چاہتی ہے۔ خوشی تو بنتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے وفاقی اور پنجاب حکومت اپنی اس خوشی اور طاقت کو عوامی خدمت، ملک و ملت کی بھلائی، دفاعی، تجارتی، اقتصادی بھلائی، دہشت گردی کے خاتمے اور قیامِ امن کے لیے کام میں لائے لیکن ماضی کے تجربات کے پیش نظر کئی اہل نظر اور واقفان حال کو ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کی آنکھیں ماتھے پہ آجائیں گی، لہجے میں رعونت آجائے گی اور یہ صورت حال زوال کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ گو توقع یہ بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن نے گزشتہ چند سالوں میں جس طرح دھکے کھائے ہیں، ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اب طاقت پر اِترانے کی بجائے اسے ملک و ملت کی ترقی اور دفاع پر خرچ کرے، لہجے میں عاجزی لائے، غیر اتحادی جماعتوں کو بھی عزت دے اور اتحادی جماعتوں کی بھی قدر کرے لیکن ایسا ہوگا یا نہیں، یہ تو آنے والے مہینوں میں ہی پتا چلے گا۔
٭٭٭
بڑے مولانا کچھ وقفے کے بعد دوبارہ میدان میں اتر آئے ہیں، ایک بار پھر ایک بڑے جلسے میں حکومت نہ چلنے دینے کا اعلان فرما دیا۔ کچھ حضرات کا خیال ہے یہ ایک سیاسی چال ہے اور حکومتی خوشی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا ڈھنگ ہے۔ دیکھا جائے تو میڈیا والے بھی کچھ کم شرارتی نہیں، عدالت عظمیٰ نے مخصوص نشستوں کی بابت فیصلہ کیا دیا، مستقبل کی تصویر کشی شروع کر دی گئی کہ27 ویں اور 28ویں ترامیم لائی جائیں گی، 26ویں ترمیم کا قبلہ درست کیا جائے گا ۔ آئینی عدالت کا قیام ہو گا، اسمبلی کی مدت میں اضافہ ہوگا ، وغیرہ وغیرہ اور اب حکومت کو مولانا کی منت سماجت کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی حکومت کے حاشیہ خیال میں بھی جو چیزیں نہیں ہوں گی، میڈیا حکومتی توجہ اس جانب کروا رہا ہے تاکہ حکومت مزید چوڑی ہو، کچھ لوگ ایوانِ صدر سے چھیڑ چھاڑ کی بھی پیشین گوئی کرتے نظر آرہے ہیں۔ یعنی ان کی چاہت ہے کہ حکومت پنگے بازی شروع کرے اور جب پنگا ہو گا تو پھر دنگا ضرور ہو گا، میڈیا کو خوب گرما خبریں ملیں گی، احتجاجی تحریک کا آغاز ہوگا، حکومت طاقت کا مظاہرہ کرے گی ، اپوزیشن متحد ہوگی، بڑے مولانا کو تحریک کی سیادت ، قیادت سونپی جائے گی۔ ابھی الیکشن کمیشن نے نشستوں کی تقسیم نہیں کی لیکن میڈیا نے خیالی پلاؤ کی خوشبو ہر طرف پھیلانا شروع کردی ہے، ایسے میں بڑے مولانا کا پیش بندی کے لیے میدان میں آنا تو بنتا ہے ۔
٭٭٭
بڑے خان صاحب اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے انہونی کے خواہش مند ہیں لیکن ان کے لیے فی الحال ہونیاں ہی ہوئی جا رہی ہیں، خان صاحب کو بڑی شدت سے 2011، 2014اور 2018کی یاد ستا رہی ہے، جب نظام اور انتظام ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے ۔ 2022ء میں نظام نے پلٹا کھایا تو انتظامات کا رخ بھی پلٹ گیا ۔ اب خلیل خان فاختہ اڑا سکتے ہیں نہ ہی پسینے کو گلاب ہونے کا اعزاز رہا ہے ۔ ایک ٹرمپ کا آسرا تھا، وہاں سے بھی نہ صرف کوئی مدد نہیں ملی بلکہ مسٹر ٹرمپ تو ایسے بے وفا نکلے ہیں کہ دشمنوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں میڈم علیمہ خان یہی کہیں گی نا: لگتا ہے عمران خان کو مائنس کر ہی دیا گیا ہے۔
٭٭٭
لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے خان صاحب ڈٹے ہوئے ہیں اور واقفانِ حال کا دعو یٰ ہے درا صل بڑی سرکار ماضی کے مزاج سے بالکل مختلف چل رہی ہے۔ دھرنے کے زمانے میں جنرل راحیل شریف نے اور بڑے خان صاحب کی حکومت کے دور میں جنرل باجوہ نے اپوزیشن کی جس طرح عزت افزائی فرمائی، اس سے سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا، اس لیے بڑی سرکار کی موجودہ قیادت غیر حکومتی سیاست دانوں سے دور رہنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ یہ عزم کب تک رہے گا اس بابت کوئی حتمی پیشین گوئی تو مشکل ہے لیکن لگ یہی رہا ہے کہ فی الحال یہی نظام چلے گا، حکومت مدت پوری کرے گی، چھوٹے میاں سے یہ بظاہر توقع نہیں کہ وہ بڑی سرکار سے الجھنے کی کوشش کریں، مریم بی بی کو بھی ایسی حماقت کرنی نہیں چاہیے اور بڑی سرکار سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ سمجھا بجھا کر اسی کمپنی کو چلائے گی ۔
٭٭٭
کے پی میں تبدیلی کے امکانات سر اٹھاتے نظر آنے لگے ہیں۔ تجزیہ کار اپنے اپنے تخیل کا اظہار کیے جارہے ہیں۔ کچھ حضرات طاقت کا پلڑا جے یو آئی کے حق میں جھکتے دیکھ رہے ہیں، کچھ کا خیال ہے بڑے مولانا ایسی جی حضوری نہیں کرسکیں گے جیسی نظام کو مطلوب ہے، اس لیے کوئی بیچ کی راہ نکالی جائے گی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ملکی استحکام اور قیامِ امن کے لیے بڑے مولانا تعاون کرنے کو تیار ہو جائیں گے اور مولانا کی للکار کا بھی کچھ لوگ یہی مطلب نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر کوئی نیا سیٹ اپ بنتا ہے اور مولانا کی جماعت کو اہمیت نہیں دی جاتی، ساری بالائی بالا ہی بالا تقسیم کر لی جاتی ہے تو مولانا کوئی رو رعایت نہیں کریں گے ۔ نئے سیٹ اپ میں تحریک انصاف کے ہاتھ جب کچھ نہیں رہے گا تو وہ بھی مولانا کی بے دامو ں مرید ہو جائے گی، پھر مولانا کا رنگ و ترنگ کچھ اور ہی ہوگا۔ توقع یہی کی جانی چاہیے بڑی سرکار اور وفاق بڑے مولانا سے پنگا لینا نہیں چاہیں گے۔ اس پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ بڑے مولانا پر اعتماد کر کے دیکھنا تو چاہیے، پڑوسی ملک، فاٹا اور دوسرے کئی معاملات میں مولانا زیادہ کارآمد ہو سکتے ہیں۔
