پاک بھارت کشیدگی اور عالمی منظر نامہ

پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے کئی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ معاہدہ ابراہیمی کو مزید فعال بنانے اور اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے کئی ممالک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کسی کی تعریف کی جا رہی ہے اور کسی پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ غزہ میں مسلسل قتل عام جاری ہے اور شمالی غزہ سے عوام کو جبراً نکالنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے کہ اسرائیل کو خطے میں بالادستی دلوائی جائے اور کوئی اس کے سامنے سر نہ اٹھا سکے۔ رہی بات غزہ اور فلسطینیوں کی تو انہیں ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے منصوبے مسلم ممالک کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ ایسے ماحول میں کئی افراد اور لابیز یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو چین اور روس خاموش کیوں ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ جن ممالک کے یہ بنیادی مسائل ہیں، وہ دباؤ میں کیوں آ رہے ہیں؟ غزہ اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج مسلم ممالک میں کیوں نہیں ہونے دیے جا رہے؟ کشمیر سے زیادہ توجہ افغانستان پر کیوں مرکوز ہے؟ البتہ مغربی دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج جاری ہے۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خوف اور ڈر کے ماحول کو پروان چڑھا کر کئی اہم فیصلے کروائے جا سکتے ہیں۔ اب ان فیصلوں پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نئی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ اس وقت ہندوستان، ایران، پاکستان، روس اور یوکرین میں ہتھیاروں کی خریداری اور تیاری پر زور ہے۔ عالمی منظرنامے میں پاکستان کی اہمیت بڑھنے کی وجہ سے اسرائیل اور ہندوستان شدید پریشان ہیں۔ اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل اور شنگھائی تعاون تنظیم میں ناکامی نے ان دونوں ممالک کو مشتعل کر دیا ہے۔ چند روز میں برکس کا سالانہ اجلاس برازیل میں ہونے جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد ہندوستان شنگھائی تعاون تنظیم کے بعد برکس سے بھی نکل جائے گا، جس کی بنیادی وجہ خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے مفادات کا ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل دونوں امریکی چھتری تلے اپنے مفادات کے حصول کے لیے متحد ہو چکے ہیں، تاہم انہیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ پاکستان اور ایران پر دوبارہ حملوں کا پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔

ہندوتوا کے پیروکار ایک طرف ہندوستان کے اندر مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن بنا رہے ہیں۔ آر ایس ایس نے بھارتی آئین سے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ نکالنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ ایمرجنسی کے دوران کانگریس حکومت نے شامل کیے تھے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے جنرل سیکریٹری دتاتریہ ہوسابلے کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ آیا ان الفاظ کو آئین سے نکالنا چاہیے یا نہیں۔ دنیا کو یہ کیوں نظر نہیں آ رہا کہ ہندوستان اپنے اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے؟ دوسری جانب ہندوستانی میڈیا پاکستان پر دوبارہ حملے کرنے کے لیے شرانگیزی کو ہوا دے رہا ہے۔ مسلسل کہا جا رہا ہے کہ آپریشن سیندور کو فعال کیا جائے، پاکستان پر دوبارہ حملے کیے جائیں، مسجد سبحان اللہ پر دوبارہ حملہ ہو اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مئی میں پاکستان، جون میں ایران پر حملے ہوئے، تو اب جولائی اور اگست میں ان کے اہداف کیا ہوں گے؟ پاکستان مکمل تیاری کی حالت میں ہے، لیکن کیا جنگ کا خوف دکھا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟

پاکستان وہ ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر یہ تحریر درج ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ شاید یہی وہ جملہ ہے جو اسرائیل کو بے چین کیے ہوئے ہے کہ پاکستان اسے ہر حال میں تسلیم کرے۔ ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ اسرائیل، ہندوستان کو اکسا رہا ہو کہ پاکستان پر دوبارہ حملے کرو، میں ساتھ دوں گا۔

ادھر روس یوکرین جنگ رکنے کی بجائے مزید شدت اختیار کر چکی ہے۔ روس نے کئی علاقوں پر حملے کیے ہیں، جس کے بعد یہ محسوس ہو رہا ہے کہ یورپی یونین میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ یورپ کے کئی ممالک چاہتے ہیں کہ نیٹو کی بجائے ایک مقامی دفاعی اتحاد بنایا جائے تاکہ ان کا انحصار امریکا پر کم ہو۔ یہ جنگوں کا دور ہے، ہر ملک کو اپنے مفادات کی فکر ہے۔

پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، جس کے خلاف پاکستانی آپریشن جاری ہیں، البتہ پاکستان میں افغان مخالف طبقہ ایک بار پھر متحرک ہو رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا افغان حکومت کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان عناصر کو روک سکے؟ یا ان کی ہلہ شیری حاصل ہے؟ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہندوستان مالی اور عسکری فنڈنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ امریکا نے جو دس بلین ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑے تھے، وہ اب دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہیں۔ کیا یہ ہتھیار طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل جان بوجھ کر کسی اور کو فراہم کیے گئے تھے؟ یہ سازشوں اور جنگوں کا دور ہے۔ بظاہر معاہدہ ابراہیمی کو آگے بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون کون اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے، چینی رہنما ماوزے تنگ نے کہا تھا: طاقت بندوق کی نال سے نکلتی ہے۔ اور موجودہ دور میں کہا جا سکتا ہے کہ طاقت میزائل کی پہنچ سے جڑی ہے اور اگر وہ میزائل ایٹمی ہو، تو وہ بیک وقت طاقت کا اظہار بھی ہے اور امن کی ضمانت بھی۔

پاکستان کو درپیش موجودہ دباؤ دراصل اس کے نظریاتی وجود اور اسلامی تشخص پر مبنی خارجہ پالیسی کا ردعمل ہے۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا، فلسطینیوں کے حق میں مسلسل آواز بلند کرنا اور کشمیر کے مسئلے پر دوٹوک موقف اختیار کرنا عالمی طاقتوں کیلئے ناقابلِ قبول بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے، معاشی دباؤ بڑھانے اور سفارتی تنہائی کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے بعض مسلم ممالک بھی امریکی و اسرائیلی دباؤ میں آ کر اپنے مفادات کے عوض فلسطین جیسے مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور پالیسی ساز ادارے جان بوجھ کر ایسے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں جس سے پاکستان کے اندر بدامنی بڑھے۔ فرقہ واریت، مسلکی اختلافات اور لسانی بنیادوں پر نفرت کو ہوا دینا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ ایسے میں پاکستان کو نہ صرف سفارتی سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے بلکہ داخلی طور پر بھی سیاسی استحکام، مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنے نظریاتی اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے عالمی چالوں کو بے نقاب کرے اور عالمِ اسلام کی قیادت کے لیے خود کو مؤثر انداز میں پیش کرے۔