قومی یکجہتی کی ضرورت

کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں کسی بھی ناگہانی صورتحال میں تمام پاکستانی یک جان ہو جایا کرتے تھے، چاہے بھارت کے ساتھ جنگ ہو یا زلزلے، سیلاب جیسی قدرتی آفات۔ بلا رنگ و نسل، زبان اور صوبائیت ہم پاکستانی سیاست اور مذہبی اختلافات بھول کر ایک ہوجاتے تھے۔ افسوس کچھ عرصہ سے ہم پاکستانی یہ روایات چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ آج معاملہ ریاستی ہو، مذہبی ہو، معاشی ہومعاشرتی ہویا پھر بین الاقوامی ہم سب سے پہلے اپنا مسلک، اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہیں، پھر معاملے کو پرکھتے ہیں۔ آپ میرے اس دعوے سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر زمینی حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ابھی حال ہی میں بھارت نے پاکستان پر یلغار کی، پھر پاکستانی جواب نے نہ صرف بھارت کی بولتی بند کی بلکہ پوری دنیا میں اپنی طاقت، ہمت اور بہادری کو منوایا مگر افسوس ہم پاکستانی اس معاملہ میں بھی بکھرے ہوئے نظر آئے، کسی نے اس جنگ کو نورا کشتی قرار دیا تو کسی نے پاکستان کی طاقت، حکمت عملی کا مذاق اُڑایا۔ اک مخصوص سیاسی جماعت سے وابستہ اندرون ملک اور سمندر پار پاکستانی یوٹیوبرز، سیاسی کارکنوں اور قائدین نے اس نازک موقع پر بھی اپنی بکواسیات جاری رکھیں، یہاں تک کہ بھارتی بولی بولتے دکھائی دیے۔

اب آتے ہیں ایران اسرائیل جنگ پر، تو یہی خاص گروہ اپنی فتنہ انگیزی پھیلاتا دکھائی دیا۔ بھارتی چینلز پر پھیلائے گئے من گھڑت پروپیگنڈا کو اپنے ٹویٹس یا پھر وی لاگ کے ذریعہ پھیلانا ہو، یہی خاص طبقہ ریاست پاکستان کے ایران کیلئے ہر مثبت اقدام کو اپنے غلیظ پروپیگنڈا کے ذریعہ سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل رہا۔ یاد رہے آج پاک ایران تعلقات جس قدر مضبوط ہیں شاید اس سے پہلے کبھی ماضی میں نہ تھے۔ ایران اسرائیل جنگ میں جہاں ایرانی ریاست ہر فورم یہاں تک کہ ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستانی حمایت پر تشکر تشکر کر رہی تھی، وہیں پر یہ بدبخت گروہ بھارتی بیانیے کو پروان چڑھانے میں پیش پیش تھا۔

ایران اسرائیل جنگ میں کچھ مذہبی ٹچ دکھاتے ہوئے جذباتی افراد بھی نظر آئے۔ جن کے نزدیک ایران کی مخالفت محض ان کے ساتھ مسلکی اختلاف ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ جذباتی افراد ایران اور اسرائیل کے درمیان چارٹ بنا کر تقابلی جائزے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ مسلم امہ کو اسرائیل سے زیادہ ایران نے نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے یہود و نصاریٰ جب کسی اسلامی ریاست پر حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس اسلامی ریاست کے مسلمان اہلسنت حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی ہیں یا پھر اہل تشیع۔

نجانے پاکستانیوں کی باہمی محبت، بھائی چارہ اور وطن سے محبت کہاں چلی گئی؟ معاملہ کوئی بھی ہو، ہم نے اپنے طبقے ہی کو فوقیت دینی ہے۔ اگر آج ہماری جماعت طاقتور حلقوں کے ساتھ ہے تو ہمیں وطن اور اس کی پالیساں بھی عزیز ہیں۔ دوسری صورت میں معاملات اُلٹ ہوں گے۔ بہت پہلے عرض کیا تھا کہ وطن عزیز میں مذہبی فرقہ پرستی کی نسبت سیاسی فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی بہت آگے نکل چکی ہے۔

ماضی میںوطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں کراچی کی ایک سیاسی کم نسلی جماعت کے قائدپیش پیش ہوا کرتے تھے اور پاکستان کے معاشی دل یعنی کراچی کے پُرامن ماحول کو تہس نہس کردیا کرتے تھے۔ الحمدللہ ریاست کی حکمت عملی اور طاقت نے اس فتنہ کا منہ بخوبی بند کیا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں ایسے شرپسند عناصر جو پاکستان کے برخلاف سرگرم عمل ہیں، ان کی سرکوبی کیلئے قوانین کے تحت سخت ترین اقدامات کئے جائیں اور ان کو قرار واقعی سزائیں دلوائی جائیں۔

اسی طرح پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں چاہے وہ حکومتی بنچوں پر براجمان ہوں یا پھر اپوزیشن بنچوں پر، ہر جماعت کی عقلمند اور محب وطن لیڈر شپ کو آگے آنا ہوگا، ان جماعتوں پر لازم ہوگا کہ ہر صورت ریاست پاکستان کو مقدم رکھیں، پارٹی منشور اور قواعد و ضوابط کو ازسر نو ترتیب دیں۔ ایسے معاملات جن کی بدولت ریاست پاکستان کمزور ہو ان معاملات پر پروپیگنڈا کرنے والے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی جماعتوں سے نکال باہر کریں۔ کاش ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کی لیڈر شپ ہم وطنوں اور اپنے کارکنوں کو توڑنے اور فرقہ واریت کی بجائے جوڑنے کا درس دے، کیونکہ اس وقت ریاست پاکستان کو قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔