سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو ان نشستوں سے محروم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ پانچ سات کی اکثریت سے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ آئندہ کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے حکمران اتحاد کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کا مطلب ہے آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی سے 27ویں ترمیم کی منظوری خارج از امکان نہیں۔
پی ٹی آئی کے لیے سب سے زیادہ پریشان کُن صورتِ حال خیبر پختونخوا میں پیدا ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ علی امین گنڈا پور کی حکومت اب چند ہفتوں کی مہمان ہے۔ پختونخوا اسمبلی سے گنڈاپور کے افراتفری میں بجٹ پاس کرانے اور علیمہ خان کے علی امین گنڈا پور کی جانب سے مائنس عمران خان کرنے کے دعوے کے پیچھے چھپی کہانی بھی اب مکمل طور پر سامنے آ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گنڈاپور نے اپنی حکومت بچانے کیلئے عمران خان سے بغاوت کرتے ہوئے یہ آخری کوشش کی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور کے اسٹیبلشمنٹ سے مضبوط روابط ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر بہت سی نورا کشتیاں بھی کھیلی ہیں۔ ان کی ہر تحریک کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی منظوری اور رضامندی شامل رہی ہے۔ دوسری طرف وہ پی ٹی آئی کے ورکرز کو قائل کرنے اور لبھانے میں بھی ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ عمران خان ان کی ڈبل گیم کو جانتے ہوئے بھی ان کیخلاف سخت فیصلہ کرنے میں متامل رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی قید کے دوران گنڈاپور نے اپنے آپ کو بہت مضبوط کر لیا ہے۔ انہوں نے ایم پی ایز کا ایک بڑا دھڑا بنا لیا ہے۔ اگر انہیں وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کا ایڈونچر کیا جاتا تو اس میں تو شاید ناکامی ہوتی، البتہ گنڈا پور اپنے ساتھیوں سمیت اپوزیشن اتحاد کو ساتھ ملا کر دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے۔ اسی خوف نے گنڈاپور کو بانی پی ٹی آئی کی مجبوری بنائے رکھا۔ گنڈاپور اپنی حیثیت اور خدمات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو شاید قابلِ قبول ہو بھی جائیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی حکومت کو پختونخوا میں اب مزید برداشت کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گنڈاپور حکومت شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں موجود 35آزاد ارکان اب فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ جن کی حمایت یا مخالفت سے حکومت کا مستقبل طے ہوگا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی 145نشستوں پر مشتمل ہے، جس میں اس وقت 25مخصوص نشستیں خالی ہیں۔ ان میں 21خواتین اور 4اقلیتی نشستیں ہیں۔ حکومت کو اس وقت 93ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں 58ارکان وہ ہیں جو پی ٹی آئی کی حکومت سے وابستہ ہیں لیکن اس وقت وہ آزاد حیثیت میں ایوان میں موجود ہیں جبکہ باقی 35آزاد ارکان بھی پی ٹی آئی کی حمایت سے ہی منتخب ہو کر آئے ہیں۔ اگر یہ 35آزاد ارکان حکومت کے ساتھ رہتے ہیں تو گنڈاپور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا تاہم ان کی علیحدگی کی صورت میں حکومتی ارکان کی تعداد گھٹ کر صرف 58رہ جائے گی جو ایوان میں سادہ اکثریت کیلئے ناکافی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جب بازی پلٹنے پر آئے تو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں 64سینیٹرز کی حمایت رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو شکست ہو جاتی ہے جبکہ 36سینیٹرز کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی جیت جایا کرتے ہیں۔
اپوزیشن میں اس وقت مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کے 9، 9ارکان، پیپلز پارٹی کے 5اور اے این پی و پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے 2، 2ارکان شامل ہیں جن کی مجموعی تعداد 27بنتی ہے، اگر خالی مخصوص نشستیں آئینی اصولوں کے مطابق ان جماعتوں کو الاٹ ہو جاتی ہیں تو اپوزیشن کی مجموعی تعداد 52تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورت میں اگر آزاد ارکان اپوزیشن سے اتحاد کر لیتے ہیں تو ایوان میں ان کی تعداد 88تک جا سکتی ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے 73ارکان درکار ہیں۔ یہ 35آزاد ارکان چونکہ کسی جماعت کے باقاعدہ رکن نہیں ہیں اس لیے اگر وہ گنڈاپور کے خلاف ووٹ دیں یا موجودہ اپوزیشن کا ساتھ دیں تو ان پر آئینی شق 63(اے) کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ان 35ارکان کی حمایت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے نہایت اہم ہو چکی ہے۔
پی ٹی آئی پر یہ برا وقت لانے کے ذمہ داران میں اس کے چوٹی کے وکلاء چیئرمین بیرسٹر گوہر علی، بیرسٹر علی ظفر، لطیف کھوسہ اور سینیٹر حامد خان برابر کے شریک ہیں جنہوں نے عمران خان کو جیل میں بریفنگ دی تھی کہ مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد کی صورت میں پارٹی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے گا جس پر پی ٹی آئی اور مجلس وحدت المسلمین کا تقریباً طے شدہ سیاسی اتحاد نہ ہو سکا۔ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرتے وقت کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ اس جماعت سے کسی ایک امیدوار نے بھی الیکشن نہیں لڑا اور اس کے سربراہ خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں اسپیکر پختونخوا اسمبلی مخصوص نشستوں پر منتخب کروائے جانے والے ارکان اسمبلی کا حلف کتنی دیر تک روک پاتے ہیں۔