اسرائیل امریکا جارحیت۔ کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی

آج کی سائبر اور سپر سانک جنگوں کے حالات جس طرح تیز رفتاری سے بدلتے ہیں’ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بدلتے مزاج کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا آسان نہیں۔ دایاں دکھاکے بایاں مارنا ٹرمپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جنگ بندی سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دعوؤں کی نفی اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر ملک کی خود مختاری کے تحفظ کی یقین دہانیوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر Bـ2بمبار طیاروں’ بنکر بسٹر بموں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا۔ دو ایٹمی قوتوں’ اسرائیل اور امریکا نے مل کر ایک نان ایٹمی ملک ایران پر حملہ کیا۔ یہ حملہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا جرم تھا مگر اس سے بھی بڑا جرم یہ کہ امریکا نے ایک ایسی قوم پر اندیشہ ہائے دور دراز کا عذر تراش کر حملہ کیا جو این پی ٹی (ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے) پر دستخط کر چکی ہے۔

1945ء میں امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی منظوری دی گئی۔ اس موقع پر ہر ملک کی خود مختاری کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طاقت اپنے آپ کو کسی اصول وضابطے کی پابند نہیں سمجھتی۔ اس وقت کے امریکی صدر نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد طاقت کے استعمال کو لگام دینے کا اعلان کیا تھا۔ آج اسی امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ نے طاقت کو بے لگام کر دیا۔ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے خلیج میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایران نے امریکی حملوں کا جواب دیتے ہوئے قطر کے العُدید امریکی اڈے پرمیزائلوں سے حملہ کر دیا۔ دنیا دھڑکتے دل کے ساتھ انتظار کر رہی تھی کہ ٹرمپ اس ایرانی جسارت کے خلاف کیا ردعمل دیتے ہیں مگر ساری دنیا اس وقت حیرت میں ڈوب گئی جب صدر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کی رضا مندی سے سیز فائر کا اعلان کر دیا۔

ایران نے خلیج کے امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کا آغاز کے ساتھ آبنائے ہرمز بند کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی اجازت حاصل کرلی۔ آبنائے ہرمز کے ذریعے کئی ممالک کو تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ ایران نے جنگ کے دوران اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے سامنے ڈٹا رہا۔ نقصانات تو ہوئے مگر آخرکار جارحین کو جھکنا پڑا۔
کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی

امریکا ایران کو حملے کے بعد امن مذاکرات کی پیشکش کر رہا تھا تو ایرانی وزیر خارجہ کا جواب تھا کہ ہم عمان میں امریکا کے ساتھ مذاکرات ہی کر رہے تھے جس کا اگلا اجلاس 15جون کو ہونا تھا، مگر اجلاس سے دو روز قبل 13جون کو اسرائیل نے ایران پر اچانک حملے شروع کر دیے۔ پھر امریکی ایما پر یورپ کے تین ممالک ہمارے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے کہ اچانک ٹرمپ نے انہیں بھی فریب دے کر ایران پر حملہ کر دیا۔

آنے والے دنوں میں اہلِ صحافت وسیاست اور ماہرین حرب اس جنگ کا تجزیہ کریں گے۔ اس کے دیکھے اَن دیکھے گوشے سامنے لائیں گے۔ ہر ایک اپنے زاویہ نظر سے اس کا اظہار کرے گا۔ اس جنگ نے اسرائیل فلسطین تنازع کی کوکھ سے جنم لیا لیکن فلسطین کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا، جنگ بندی کے بعد بھی اس کا کوئی ذکر نہیں، ثالث بھی خاموش۔ بہرحال ایران کو مستقبل میں اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانا پڑے گی، جنگ نے اسے موقع دیا ہے کہ وہ تنہائی سے نکلے۔ فتح وشکست کے تذکرے خواہشات کے تابع ہوتے ہیں۔ حالیہ جنگوں میں یہ واضح ہوا ہے کہ عسکری قوت کا انحصار اب ایئر فورس پر ہے۔ فضائی برتری ہی جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ جس کیلئے عسکری منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ اس جنگ میں ایک اور بات یہ ہوئی کہ اقوامِ متحدہ کو بڑی طاقتوں نے بنیادی فیصلوں سے لاتعلق کر دیا جو دنیا بالخصوص کمزور اقوام کیلئے نیک شگون نہیں۔

کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہو تا ہے، شاید ایسا ہی ہو لیکن دونوں مدد کے متلاشی بھی ہوتے ہیں۔ جنگ جتنی ضروری ہو، اس کا رکنا زیادہ مقدم ہے۔ ہر جنگ کے اختتام پر جلد یا بدیر میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ آتش و آہن کی بارش حتمی فیصلہ نہیں کرتی، فتح یا شکست کے بعد بھی چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں۔ مئی 2025کی پاک بھارت جنگ ٹرمپ کی مداخلت سے سیز فائر میں بدلی۔ بندوق دونوں جانب طاقتور ہو تو توازن بھی جنگوں کو روکنے اور امن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے ورنہ بھارتی ذہنیت سے زمانہ واقف ہے۔ اسرائیلی مافیا کو 1933میں فلسطین نے انسانی بنیادوں پر پناہ دی، ورنہ 1080ء اور 17/ 1113ء میں فرانس سے 1171ء اٹلی سے، 1299ء میں تیسری دفعہ برطانیہ اور 1360ء ہنگری سے گویا اس کے بعد مسلسل سوئٹزرلینڈ، جرمنی پرتگال، لتھوانیا، پولینڈ اور اسپین سے یہ مافیا نکالا جاتا رہا۔ قصہ مختصر 1113ء سے 1933ء تک کئی ملکوں سے بار بار نکالا جاتا رہا۔ جہاں پناہ ملی وہیں وہ اژدھا بن گیا اور آج بھی وہ پھنکار رہا ہے۔ اس جنگ میں بلاشبہ ایران کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت منظر سے ہٹ گئی’ بعض ایٹمی مراکز’ حساس دفاعی تنصیبات اور شہری مقامات پر اندھا دھند بمباری کی گئی لیکن امریکا’ اسرائیل اور اہلِ مغرب کے تمام تر اندازوں کے برعکس ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے’ بلکہ جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔

ایران کی انقلاب برآمد کرنے کی حکمت عملی سے عرب حکمرانوں کو اپنی حکومتیں بچانے کی فکر لاحق ہو گئی۔ پاکستان میں بھی سرمائے سے اپنے تابع فرمان گروہ پیدا کیے گئے’ مسالک کے درمیان مسلّح تصادم سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ ایران اس وقت اسی وجہ سے تنہائی کا شکار ہوا۔

فارسی زبان کی کہاوت ہے کہ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست، در پریشاں حالی و درماندگی۔ دوست وہ ہوتا ہے جو پریشان حال دوست کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ ایران سے بھارت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی، وہ اس کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا اور کئی دہشت گرد تنظیموں اور افراد کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں اس کا معاون رہا مگر مشکل وقت میں بھارت ایران دوستی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کا نقصان ایران کواس جنگ میں اٹھانا پڑا۔ دوسری طرف اس امتحان میں پاکستان سرخرو ہوا کہ اس نے نہ صرف حملوں کی مذمت کی بلکہ ایران اور اسرائیل کی جنگ بندی کے لیے اس کی کوششوں سے خطے میں امن قائم کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔

ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کیلئے سبق یہ ہے کہ اسے اپنی میزائل سازی کی صنعت کو مزید ترقی دینا اور مضبوط دفاعی نظام بنانا ہوگا۔ ایران پر اسرائیل کے پہلے حملے کے بعدامریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی’ ہم ان حملوں میں شامل نہیں اور خطے میں تعینات امریکی افواج کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور پھر وہ وقت آیا کہ امریکی طیاروں نے خود ایران کی سرزمین پر مہلک بموں سے حملہ کردیا۔

سوال یہ ہے کہ سیز فائر کے بعد کیا ہوگا؟ پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر کو ڈیڑھ مہینہ ہو چکا ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھے، پہلگام وقوعہ کے بعد سندھ طاس معاہدے پر موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اگر بھارت اس دھمکی پر عمل کرتا ہے تو بقول بلاول ہمیں ایک اور جنگ بھارت سے لڑنا پڑے گی۔ اس طرح جنگ بندی کے باوجود جنگ کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے۔ اس جنگ بندی کے بعد کیا دونوں ممالک میں جن ایشوز کی بنیاد پر جنگ چھڑی، ان کو طے کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی؟ بعد از جنگ بندی منظر نامے میں نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ اور سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل نے جوہری تنصیبات کی سلامتی کی ضمانت ملنے تک اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی جو اس اعتماد کا مظہر ہے کہ: شکستہ ہو کے بھی ناقابل شکست ہوں میں!

اصل ضرورت جنگ بندی کے بعد معاملات کو سنبھالنے اور ان شقوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہے جن کی بنیاد جنگ بندی عمل میں لائی جاتی ہے۔