سوات سیلاب سے اموات اور انتظامیہ کی غفلت

موسمی بارشوں نے 27جون 2025کی صبح سوات کی شاندار وادی میں ایک ہلچل مچا دی، جب خوشی سے سیاحتی دورے پر آئے دو خاندانوں کے 18افراد دریائے سوات کے کنارے چائے اور ناشتہ کر رہے تھے۔ پانی قدرے کم تھا اور بچے سیلفیاں لے رہے تھے کہ اچانک پانی کی سطح بلند ہوئی، ایک flash flood کے طوفانی جھٹکے نے ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابتدائی طور پر 9افراد کی لاشیں ملیں، جبکہ 4کو زندہ بچایا گیا اور تا دم تحریر باقی کی تلاش جاری ہے اور یہ واضح ہے کہ ان کی لاشیں ہی تلاش کی جا رہی ہیں۔

یہ المناک واقعہ دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود پیش آیا، اس دفعہ کے تحت ضلعی انتظامیہ نے دریا کے کنارے جانے پر پابندی عائد کردی تھی، مگر بد قسمت سیاحوں نے اس کی پابندی نہیں کی اور موت نے انہیں آلیا۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے ہفتہ قبل ہی خطرناک صورت حال کے تناظر میں اس پابندی کا حکم جاری کیا تھا، لیکن سیاحوں کی بے احتیاطی اور انتظامیہ کی نگرانی کی کمی نے اس پابندی کو بے معنی بنا دیا۔ محکمہ موسمیات نے 26تا 28جون کے لیے موسمی الرٹس جاری کیے تھے اور این ڈی ایم اے نے بارش کے باعث flash floods کی وارننگ دی تھی، لیکن ان انتباہات کی عوامی سطح پر تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے خطرہ معمولی سمجھا گیا۔

ریسکیو 1122، ضلعی انتظامیہ اور دیگر امدادی ٹیموں نے فوری کارروائی شروع کی، لیکن شدید پانی کی رفتار اور دشوار حالات نے ابتدائی امدادی کوششوں کو ناکام کر دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ متاثرین کئی گھنٹوں تک پانی کے درمیان پھنسے رہے، ان کی آوازوں میں زندگی کی امید تھی مگر ابتدائی کاروائی نہایت تاخیر سے شروع ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامی اور تکنیکی تیاری کس قدر غفلت پر مبنی تھی مثلاً فوری رسپانس یونٹس، ڈرون نگرانی یا ہائی الرٹ ریسکیو کی سہولت کی کمی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ان علاقوں میں اس قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن ہم ان سے سبق حاصل کرنے اور پیشگی انتظامات کی بجائے نئے واقعات کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

اس دردناک سانحے کے بعد صوبائی حکومت نے چند حکام کو غفلت کا مرتکب قرار دے کر ذمے داریوں سے معطل کر دیا، جن میں اسسٹنٹ کمشنرز، اے ڈی سی رلیف اور مقامی ریسکیو 1122کے سربراہ شامل ہیں، جبکہ این ڈی ایم اے کے متعلقہ حکام سے اس سانحے کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود یہ ردعمل ایک وقتی اقدام ہے، جو اصل بحران یعنی قدرتی آفات میں اضافہ، موسمیاتی پیچیدگیوں، انتظامی غفلت اور عوامی شعور کی کمی جیسے مسائل کے مستقل حل کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ واقعہ صرف انتظامی سستی کا نتیجہ نہیں بلکہ پاکستان میں موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات کا عکاس بھی ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ flash floods اب مسائل کا باعث بننے والی روزمرہ کی صورت ہو چکی ہے، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں جہاں پانی کا بہاؤ تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ حکومتی حکمتِ عملی کو مختصر نوعیت کے اقدامات سے آگے بڑھا کر طویل المدت بحران کم کرنے والی انفراسٹرکچر ترقیات اور عوامی شعور پر مرکوز کیا جائے۔

آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ قدم بہ قدم یہ نظام مرتب کیا جائے کہ دریا کے کنارے پیچیدہ بیریئرز، ریئل ٹائم واٹر لیول مانیٹرنگ سسٹم، موبائل الرٹس، ہائی الرٹ ریسکیو یونٹس، ڈرون نگرانی اور محکمہ سیاحت کے ساتھ مل کر پرائیویٹ گائیڈز کی شمولیت۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور موسمیاتی اداروں کو مل کر عوامی فہم و آگاہی کے لیے سائیکلڈ اپیلیں چلانی چاہئیں تاکہ دفعہ 144سے بے خبر سیاح خود بھی محفوظ رہنے کے فیصلے کریں۔ اگر یہ نظام اور شعور قائم ہو جائے تو سوات دوبارہ افسوسناک خبروں کا موضوع نہیں بلکہ محفوظ سیاحت کی کامیاب مثال بن سکتا ہے۔

یہ سانحہ ہمیں سنجیدگی کی تلقین کرتا ہے کہ قدرتی آفات کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہیے بلکہ اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے اور کسی بھی خطرناک علاقے میں اپنے سیلفیوں کے جنون کو ایک طرف رکھ کر اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینی چاہیے۔ انتظامیہ کی طرف سے جاری کی گئی وارننگز کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اور ان کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے جو کہ محض ہماری حفاظت کے لیے ہوتی ہیں۔ ان حادثات میں انتظامیہ کی ہی نہیں خود جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی بھی غلطی ہوتی ہے اس لیے ان واقعات سے سبق سیکھ کر آئندہ سیاحت پر جانے والوں کو نہایت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔