امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو دو دن پہلے ایران سے مذاکرات کے ”موڈ” میں نہیں تھے اور ایرانی قیادت کو غیر مشروط سرنڈر کا الٹی میٹم دے رہے تھے، اچانک پھر سے بات چیت کے موڈ میں آگئے ہیں اور انہوں نے مذاکرات کے لیے دو ہفتوں کا وقت مقرر کردیا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے موقف میں آنے والے اس تغیر کے پیچھے ان کی تلون مزاجی اور غیر مستقل و غیر متوازن افتاد طبع کے علاوہ کیا اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں؟ اس پر مختلف تجزیے سامنے آرہے ہیں۔ بعض مبصرین اسے پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ان کی ملاقات سے جوڑ رہے ہیں جنہوں نے امریکی صدر کو ایران پر کسی حملے کے مضمرات سے آگاہ کیا اور انہیں بات چیت کو موقع دینے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ دگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو شاید روس کے صدر ٹرمپ کا پیغام سمجھ میںآگیا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایران پر حملہ جنگ کے دائرے کو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام میں سینکڑوں کی تعداد میں روسی ماہرین اور سائنسدان بھی کام کرتے ہیں جو جوہری تنصیبات پر کسی حملے کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روسی صدر نے امریکا کو براہ راست انتباہ کیا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے روسی صدر پیوٹن کے اس بیان کو خصوصی اہمیت دی ہے کہ روس اسرائیل کو کئی بار یقین دہانی کراچکا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور یہ کہ ایران کا ایٹم بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ خود ایرانی قیادت کا بھی یہی موقف ہے اور ایران کے سپریم لیڈر علی خامنائی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ایرانی قیادت ایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیار بنانے کو جائز ہی نہیں سمجھتی۔ مزید دل چسپ امر یہ ہے کہ خود امریکی خفیہ ایجنسیاں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ایران کے پاس ایٹم بم ہیں نہ ہی وہ ایٹم بم بنانے کا خواہاں ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے مشترکہ ڈائریکٹوریٹ کی سربراہ تلسی کباڈ نے جوکہ خود ڈونلڈ ٹرمپ کی معتمد اور منتخب کردہ ہیں، ابھی مارچ میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ایران ایٹمی ہتھیار بنانے سے بہت دور ہے۔ اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ جوکہ اپنے عمل سے صہیونی لابی کے ایجنٹ ثابت ہوئے ہیں، مصر ہیں کہ ایران ایٹم بم بنانے کے بہت قریب ہے۔ انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کو بھی غلط قرار دیا اور تلسی کباڈ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ بالکل اسی طرح کا جھوٹ ہے جو امریکا نے 2003ء میں عراق پر حملے کے وقت پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ بولاتھا جس کا بعد میں اسے اعتراف بھی کرنا پڑا۔ اس وقت عراق پر امریکا کی قیادت میں ہونے والے حملے کا سب سے بڑا جواز یہ پیش کیا گیا کہ صدام حسین کی حکومت کے پاس مہلک کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ عراق نہ صرف کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار رکھتا ہے بلکہ وہ نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ ان دعوؤں کو تقویت دینے کے لیے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے اقوام متحدہ میں ایک مشہور تقریر کی جس میں انہوں نے سیٹلائٹ تصاویر اور ”انٹیلی جنس رپورٹس” کو بطور ثبوت پیش کیا۔ اس وقت برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر بھی امریکی موقف کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ امریکا نے مارچ 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، مگر کئی مہینوں کی تلاش کے بعد بھی کوئی بھی کیمیائی، حیاتیاتی یا نیوکلیئر ہتھیار دریافت نہ ہو سکے۔امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل، جنہوں نے 2003 میں اقوام متحدہ میں عراق کے خلاف فیصلہ کن تقریر کی تھی، نے بعد میں اعتراف کیا کہ وہ تقریر ”ان کے کیریئر کا سیاہ ترین لمحہ ”تھی۔
2004 میں عراق سروے گروپ کے سربراہ چارلس ڈولفر نے کانگریس کو رپورٹ دی کہ سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی معلومات مکمل طور پر غلط تھیں۔ نہ تو کیمیائی ہتھیار ملے، نہ ہی صدام کا کوئی فعال نیوکلیئر یا بایولوجیکل پروگرام موجود تھا۔ اگرچہ صدر بش نے کبھی کھل کر جھوٹ کا لفظ استعمال نہیں کیا تاہم 2005 میں ایک تقریر میں انہوں نے اس غلطی کی ذمہ داری قبول کی، مگر اس کو ایک ”بدنیتی” کی بجائے ایک ”انٹیلی جنس ناکامی” مگر یہ محض غلطی نہیں تھی کیونکہ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا کہ امریکی حکومت نے جان بوجھ کر انٹیلی جنس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ جنگ کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ سی آئی اے کے اْس وقت کے ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ نے بعد میں تسلیم کیا کہ عراق پر حملے سے پہلے وسیع ہتھیار پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں دی گئی انٹیلی جنس مکمل یقین کے ساتھ پیش کی گئی، لیکن وہ غلط نکلی۔ ان اعترافات سے واضح ہے کہ عراق جنگ کے لیے استعمال ہونے والا سب سے بڑا جواز، یعنی کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی ایک غلطی، دھوکہ یا جان بوجھ کر گمراہ کن معلومات پر مبنی تھا۔ اس واضح جھوٹ پر مبنی مہم جوئی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں جنگ سے تقریباً پانچ لاکھ سے زائد افراد شہید اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ ملک میں بدامنی، خانہ جنگی اور دہشت گردی کی نئی لہر اٹھی۔ داعش جیسے شدت پسند گروہ عراق میں ابھرے، جنہوں نے پورے خطے کو غیر مستحکم کیا۔
ایسا لگتا ہے کہ اب ایران کے ساتھ بھی وہی کہانی دوہرائی جارہی ہے۔ ایران اپنے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات سے انکاری نہیں ہے، وہ اس وقت بھی یورپی ممالک کے ساتھ میز پر بیٹھا ہوا ہے، بلکہ13 جون کو جس وقت اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا، ایران دو دن بعد امریکا کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور میں جانے کو تیار تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ صہیونی لابی اس مسئلے کے پر امن حل کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی ہے،اس لیے اس نے ایران پر بمباری کرکے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کردیا۔ اسرائیل کا یہ عمل ایک لحاظ سے بحیثیت ایک ملک کے امریکا کے منہ پر بھی طمانچہ تھا جو اس وقت ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھا، امریکی صدر ٹرمپ نے اس بدمعاشی پر اسرائیل کی گوشمالی کرنے کی بجائے الٹا ایران کو دھمکیاں دینا شروع کردیں جو اس بات کی علامت ہے کہ مسٹر ٹرمپ کی رگ جاں پوری طرح سے پنجۂ یہود میں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پوری دنیا کے لیے فیصلے کی گھڑی ہے کہ امریکا کو جھوٹے الزام کے تحت عراق پر حملے کی کہانی ایران میں دہرانے کی اجازت دے کر انسانیت کے منہ پر مزید کالک ملنی ہے یا پھر سچائی اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہے۔