ایران کی جانب سے اسرائیل کیخلاف جوابی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران کے پاسداران انقلاب نے حیفہ اور تل ابیب میں اسرائیلی فوجی مقامات اور عسکری صنعت سے وابستہ تنصیبات پر مربوط میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں جن کا بنیادی ہدف اسرائیل کے اینٹی میزائل دفاعی نظام کو ناکارہ بنانا تھا۔ بتایا جارہاہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی عسکری ہیڈکوارٹرز پر ایرانی ہائپرسونک میزائلوں کا خوفناک حملہ ہوا جس نے اسرائیلی فوجی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ حملے کے نتیجے میں ہیڈکوارٹر مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور فضا میں دھویں کے بادل چھا گئے۔ دوسری طرف اطلاعات کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری اس شدید کشیدگی کے درمیان بین الاقوامی سطح پر کئی ایسی پیش رفتیں ہوئی ہیں جو نہ صرف جنگ بندی کے امکانات کو تقویت دیتی ہیں بلکہ اسرائیل کی حالیہ جنگی حکمت عملی کے خلاف ایک خاموش مگر موثر بین الاقوامی اتحاد کی تشکیل کی نشان دہی بھی کرتی ہیں۔
ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے اگر بین الاقوامی ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کیخلاف ایک خاموش مزاحمتی اتحاد تشکیل پا رہا ہے جس میں چین، روس، پاکستان، ترکی، شمالی کوریا اور کئی دیگر ممالک شامل ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال پر فوری جنگ بندی کیلئے چار نکاتی تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں شہریوں کا تحفظ، مکالمہ کو بنیادی راستہ قرار دینا، مذاکرات کا آغاز اور عالمی برادری کی فعال امن کوششوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے قبل چینی صدر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی جس میں دونوں رہنماؤں نے ایران پر اسرائیلی حملے کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور موجودہ کشیدگی کو صرف سفارت کاری کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ چینی صدر نے روسی ثالثی کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ امریکا کی اس تنازعے میں ممکنہ مداخلت صورتحال کو مزید سنگین اور ناقابل کنٹرول بنا سکتی ہے۔
پاکستان نے بھی اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں واضح کیا کہ ایران کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 21 مسلم ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی اقدامات کو مسترد کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو قانون کے دائرے میں لائے۔ ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے پاگل پن کا خاتمہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایران، ترکیہ، مصر، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ سے رابطے کیے اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کے امن کیلئے خطرناک نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے ایران سے متعلق پاکستان کے واضح اور شفاف موقف کو دہرایا اور کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان نے تہران میں رجیم چینج سے متعلق تمام افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اس موقع پر یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اسرائیل اس وقت شدید سائبر حملوں کی زد میں ہے۔ سائبر حملے کرنے والے گروپ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے فوجی اور حکومتی مواصلاتی نظام پر ایک کثیر جہتی سائبر آپریشن کے ذریعے شدید ضرب لگائی ہے۔ اس حملے میں اسرائیل کے سیٹلائٹ کمیونی کیشن سسٹم، اسپیس کام، جاسوسی نیٹ ورک، پانی، گیس اور بجلی کے نظام اور دفاعی کمپنیوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کو مفلوج کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ 50 ٹیرا بائٹس سے زائد حساس ڈیٹا حاصل کر کے اسرائیلی دفاعی نظام کی کمزوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دی گئی۔ سائبر حملے کرنے والے گروپ نے انکشاف کیا کہ اب اسرائیل اپنے کسی بھی دفاعی نظام پر اعتماد نہیں کر سکتا۔
ان حالات میں کیا اسرائیل ایران کے خلاف ایک طویل مدتی جنگ کے قابل ہے ؟اس سوال کی اہمیت اس تناظر میں بڑھ جاتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق وہ آئندہ دو ہفتوں میں ایران پر حملے کے امکان پر غور کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کے سامنے صرف ایران نہیں بلکہ چین، روس، شمالی کوریا، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک کی اجتماعی مزاحمت کا خطرہ بھی موجود ہے۔ چین اور روس نے اپنے اقدامات کے ذریعے امریکا کو متنبہ کر دیا ہے کہ اگر وہ جنگ میں مداخلت کرتا ہے تو وہ بھی میدان میں اتر آئیں گے۔ ٹرمپ کے لیے یہ فیصلہ اب کسی طور آسان نہیں رہا۔ میدانِ جنگ سے ہٹ کر سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کے خلاف دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد یورپی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ نے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینے کے امکانات پر گفتگو کی ہے اور جنگ بندی کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف رائے عامہ تشکیل پاچکی ہے۔ اسرائیل کے خلاف عالمی فضا کی تشکیل میں ایک اور پہلو امریکا اور اسرائیل کے بڑھتے فوجی تعلقات سے متعلق ہے۔ امریکا نے Bـ2 اسٹیلتھ بمبار اسرائیل بھیج دیے ہیں جبکہ امریکی و برطانوی بحری جنگی بیڑے اسرائیل کے ساحلوں کے قریب لنگر انداز ہو چکے ہیں۔ اس تمام عسکری حمایت کے باوجود اسرائیل کے دفاعی خطوط ایرانی میزائلوں اور ڈرون اور سائبر حملوں کے سامنے غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیںجبکہ دوسری جانب ہمدردی کی بجائے اسرائیل کے خلاف اقوام عالم میں یکساں موقف تشکیل پارہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ موجودہ صورت حال میں ایک طرف امریکا اور اسرائیل کے مابین عسکری تعاون کا عمل جاری ہے، تو دوسری طرف دنیا کے کئی اہم ممالک جیسے چین، روس، پاکستان، ترکی اور شمالی کوریا اسرائیل کی پالیسیوں اور امریکا کی یکطرفہ حمایت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ صف بندی اگرچہ فی الحال غیر رسمی اور خاموش ہے، لیکن دنیا بھر میں ایک نئی اخلاقی اور سفارتی قوت کی تشکیل کی علامت ضرور بن چکی ہے۔ اگر اس اتحاد کی سفارتی کوششیں، عوامی دباؤ، اور عالمی رائے عامہ کا تسلسل برقرار رہا تو ممکن ہے کہ اسرائیل کو بالآخر غزہ میں جارحیت روکنے اور فلسطینی نسل کشی کا سلسلہ ختم کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔