عالم اسلام کے اتحاد کا وقت

ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر پاکستان سمیت 20مسلم ممالک کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا، اسلامی ممالک نے ایران پر اسرائیل کے حملوں کو یکسر مسترد کردیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے مکمل گریز سب سے زیادہ اہم ہے، جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں ہیں۔ ایسی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قانون، بشمول 1949 کے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔ قبل ازیں کینیڈا میں ہونے والی سمٹ میں جی سیون نے اسرائیل کی حمایت کردی۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق جی سیون ممالک کے بیان میں ایران کو عدم استحکام کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ مشترکہ بیان میں مشرق وسطی میں وسیع پیمانے پر کشیدگی میں کمی، ایران کے بحران کے حل اور غزہ میں بھی جنگ بندی پر زور دیاگیا ہے۔ جی سیون نے کہا کہ ہمارا موقف ہمیشہ سے واضح ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔

دنیا ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ مشرق وَسَطی میں اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف جارحیت کے بعد عالمی ردعمل دو بالکل متضاد دھاروں میں بٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک جانب اسلامی دنیا ہے، جس نے ایک آواز ہو کر اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بنیادی انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ دوسری طرف جی سیون کی طاقتور مغربی اقوام ہیں، جنہوں نے اسرائیل کی بھرپور حمایت ظاہر کی ہے اور ایران کو خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ دو مختلف بیانیے واضح کرتے ہیں کہ اس اہم اور مشکل موڑ پر دنیا کس قدر تقسیم سے دوچار ہے۔ پاکستان سمیت بیس مسلم ممالک جن میں سعودی عرب، ترکی، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر شامل ہیںنے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ اس بیان میں اصولی موقف اپنایا گیا ہے کہ ایک آزاد و خود مختار ملک کی جوہری تنصیبات پر حملے بین الاقوامی قانون، خاص طور پر جینوا کنونشن اور یو این چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں، خصوصاً جب یہ تنصیبات بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں ہوں۔

دوسری جانب جی سیون کے اعلامیے میں اسرائیل کے ”دفاع کے حق” کو تسلیم کیا گیا ہے اور ایران کو موجودہ کشیدگی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان ممالک نے بیک زبان اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت تو کی، مگر ایران کے اسی حق کو نظر انداز کر دیا۔ ان کے اعلامیے میں ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی بات کی گئی، مگر اسرائیل کی غیر اعلانیہ جوہری صلاحیت پر ایک لفظ تک نہیں کہا گیا، کہہ بھی کیسے سکتے ہیں، ان سے یہ توقع ہی کون رکھتا ہے، کیونکہ انہی کی مکمل مدد اور سرپرستی میں اسرائیل نے ہتھیاروں کا ڈھیر لگا رکھا ہے۔ یہ دوہرا معیار عالمی انصاف، امن اور خود ان کے اپنے جمہوری اصولوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ یہ وہی مغرب ہے جو ہر موقع پر انسانیت، حقوقِ انسانی، جمہوریت اور بین الاقوامی ضابطوں کے نعرے لگاتا ہے، مگر جب ان اصولوں کا اطلاق ان کے مفادات سے ٹکراتا ہے، تو وہی مغرب ان نعروں کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اسرائیل کی حمایت کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ وہ اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔ یقینا ہر ریاست کو دفاع کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ ریاست جائز ہو، غاصب نہ ہو اور اس کا وجود بین الاقوامی قانون کی حدود میں ہو۔ اگر ہم اس اصولی موقف کو تسلیم کر بھی لیں، تب بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ پھر ایران کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟ کیا ایران اقوام متحدہ کا رکن نہیں؟ کیا اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی خودمختاری اور دفاع کا حق نہیں ہے؟ دوسری اہم بات جو جی سیون کے اعلامیے میں دہرائی گئی، وہ ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش ہے، مگر یہاں بھی اصولوں کی بجائے مفادات کی سیاست کارفرما ہے۔ اسرائیل خطے کی واحد جوہری طاقت ہے، جس کے پاس مبینہ طور پر 80 سے زائد جوہری وار ہیڈز موجود ہیں، مگر وہ نہ تو این پی ٹی کا رکن ہے، نہ ہی اس کے جوہری اثاثے کسی بین الاقوامی نگرانی میں ہیں۔ اگر جوہری عدم پھیلاؤ واقعی ایک عالمی مقصد ہے تو اس کا آغاز اسرائیل سے کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا کسی مغربی بیان میں اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر تشویش کا ذکر ملتا ہے؟ یا اسرائیل کو کبھی ان ہتھیاروں کے خاتمے کی تلقین کی گئی ہے؟ جواب ہے،نہیں!ایسی صورت میں ایران اگر اپنے دفاع کیلئے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اسے روکا کیوں جاتا ہے؟ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ہم جو کریں وہ قانون، تم جو کرو وہ جرم، کیا ہم مہذب دنیا کی بجائے کسی جنگل میں رہتے ہیں، جہاں جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا قانون رائج ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر ان کا طرزعمل بدترین آمریت اور بین الاقوامی بدمعاشی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کو اندھا دھند حمایت فراہم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کو طاقتوروں کی مرضی کا غلام بنا دیا گیا ہے اور دنیا میں امن، انصاف، جمہوریت اور انسانیت کے دعوے محض ایک لطیفہ ہیں۔

مسلم دنیا کا مشترکہ موقف اس لحاظ سے امید افزا اور قابل تعریف ہے کہ اس نے سیاسی اختلافات کے باوجود اصولی، انسانی اور اخلاقی بنیاد پر جارحیت کیخلاف مظلوم کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ شدید اختلافات اور اختلاف کا واضح جواز ہونے کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام بالخصوص عالم عرب کی، زبانی کلامی سہی، ایران کی حمایت اور اسرائیل کی شدید مخالفت قابل تحسین اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ امت مسلمہ کو ادراک کرنا ہوگا کہ ان کی تقسیم ہی دشمن کا ہتھیار ہے۔ ایران کل اگر کمزور پڑتا ہے تو اگلا نشانہ عالم اسلام کا کوئی اور ملک ہوگا۔ آج اگر ایران کے خلاف جارحیت کو قبول کیا جاتا ہے تو کل کسی اور مسلم ملک کے خلاف اسی طرز پر کارروائی کو روکنے کا اخلاقی اور قانونی جواز باقی نہیں بچے گا۔ اسلامی ممالک کا یہ اتحاددیر سے سہی، درست سمت میں ہے۔ عالم اسلام کو متحد ہوکر اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانا ہوگا، ورنہ دشمن انہیں تنہا کرکے ایک ایک کرکے کچلتا چلا جائے گا۔