عالمی امن و استحکام سے کھلواڑ کی کوشش

امریکا کے ذہنی توازن سے محروم صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی امن واستحکام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ مشرق وسطی میں امریکی لے پالک اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر صہیونی کارندے کے طور پر مشہور ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا میں جی سیون ممالک کا اجلاس بیچ میں چھوڑ کر واپس واشنگٹن روانہ ہوگئے اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہوائی جہاز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ بات چیت کے موڈ میں نہیں، اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس تنازع کو بالکل ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جہاز میں موجود صحافیوں کے مطابق امریکی صدر نے ”تنازع کو بالکل ختم کرنے” کی بات کرکے اس بات کا اشارہ دیا کہ امریکا ایران کے خلاف جنگ میں کودے گا اور اس کی جانب سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فیصلہ کن حملہ کیا جائے گا۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکا ایران کے جوہری پروگرام کے ایک مرکز فردو پر بی باون طیاروں کے ذریعے تین ہزار پونڈ وزنی بنکر بسٹر بموں سے حملہ کرنا چاہتا ہے، بعض مبصرین ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ایٹمی میزائلوں سے حملے کا امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران کے باشندوں کو شہر چھوڑنے کے مشورے کے تناظر میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا اسرائیل کو بچانے کے لیے وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار بھی استعمال کرسکتا ہے۔ ساتھ میں اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کو صدام حسین جیسے انجام کی دھمکی بھی دی ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل ایران کے جوہری اثاثوں پر حملے کے ساتھ ساتھ ایران کی اعلیٰ قیادت کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگلے اڑتالیس گھنٹے اہم قرار دیے جارہے ہیں اوراگر دیگر عالمی قوتوں چین، روس وغیرہ نے موثر مداخلت نہیں کی اور ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شیطانی جوڑی کا ہاتھ روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی تو دنیا میں بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کا خدشہ بالکل واضح ہے۔

تادم تحریر صورت حال یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے کے پانچویں دن بھی ایران اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کے روز ہونے والے ایک حملے میں ایران نے اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا جس کی عالمی میڈیا بھی تصدیق کر رہا ہے۔ عالمی مبصرین کے مطابق تہران پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ایران کا ردعمل شاید اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کے اندازوں سے کہیں زیادہ ثابت ہوا ہے، اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے سخت ترین سنسر شپ اور عالمی میڈیا کے نمایندوں کو ہراساں کرنے کے باوجود اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب، مقبوضہ بیت المقدس، حیفہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی اور نقصانات کے مناظر تصاویر اور ویڈیوز کی صورت میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے چھن چھن کر دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ ایران کے اس مضبوط جواب نے اسرائیل کے شہریوں کو بھی پہلی دفعہ احساس دلایا ہے کہ ہلاکت، تباہی اور خانماں بربادی کے دکھ کیا ہوتے ہیں اور جب گھروں میں سوئے ہوئے افراد پر اچانک بم اور میزائل برسائے جاتے ہیں تو اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ آج تل ابیب کے لاکھوں یہودی باشندوں کو خوف و دہشت کے جس ماحول کا سامنا ہے، تل ابیب سے محض چند سو کلو میٹر پر غزہ کے تیس لاکھ باشندے گزشتہ بیس ماہ سے اس سے کہیں زیادہ تکالیف اور اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہودی باشندوں کو تو میزائل حملوں سے بچاؤ کے لیے شیلٹر بھی میسر ہیں جبکہ غزہ کے لوگوں کے سروں سے چھتیں بھی چھینی جا چکی ہیں۔

اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اسرائیل اور اس کے عالمی سرپرست اس تباہی و بربادی سے سبق حاصل کریں اور جنگ روکنے اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم بند کرنے کا سوچیں مگر ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کی فطرت مکمل طور پر مسخ ہو چکی ہے۔ وہ ایران سے ہلکی پھلکی مار پڑنے کے بعد اندھے انتقام کے پاگل پن میں مبتلا ہوکر اب انسانیت کا مزید خون پینے پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔ ایسے میں یہ امن پسند اور انصاف کے نظریے پر یقین رکھنے والے طاقتور ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جوڑی کو دنیا میں مزید فساد پھیلانے سے روکیں اور مشرق وسطی کے سلگتے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات اور گفت و شنید کا مہذب طریقہ اپنانے پر سب کو آمادہ کریں۔ اس حوالے سے پوری دنیا کی نگاہیں چین اور روس پر لگی ہوئی ہیں۔ روس چونکہ خود یوکرین کی جنگ میں الجھا ہوا ہے اور امریکا و یورپ سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں، اس لیے وہ تو شاید اپنے آپ کو اس سلسلے میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر سمجھتا ہے لیکن اسے یقینا اس امر کا بھی ادراک ہوگا کہ ایران کو تباہ کر کے وہاں رجیم چینج کرنے کا امریکی منصوبہ اگر کامیاب ہوگیا تو روس کے لیے بھی خطے میں نئے چیلنج ابھر سکتے ہیں۔

اسی طرح چین عام طور پر عالمی و علاقائی تنازعات میں نہ الجھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتا ہے مگر اس امر سے وہ بھی بے خبر نہیں ہوسکتا کہ اسرائیل کے تحفظ کے نام پر خطے میں امریکی بحری و فضائی سرگرمیوں میں اضافہ اس کے لیے کتنا پرخطر ہوسکتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ایران پر حملے کے ارادے سے امریکا کے بحری اور فضائی بیڑے بحیرہ روم، بحر احمر اور خلیج فارس و عمان کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ امریکا کی تاریخ رہی ہے کہ وہ کسی بہانے سے جب ایک خطے میں جاتا ہے تو پھر وہاں سے نکلتا نہیں ہے جب تک کہ ویتنام یا افغانستان کی طرح اسے بے آبرو ہوکر نکلنے پر مجبور نہ کردیا جائے۔ اس لیے خطے میں اسرائیل کے تحفظ کے نام پر امریکی مہم جوئی چین کے اردگرد تزویراتی شکنجہ کسنے کی دیرینہ حکمت عملی کو آگے بڑھانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین کی وزارت خارجہ نے اسرائیل ایران جنگ سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات کو جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے جنگ کا دائرہ پھیل سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین جیسے زبردست عسکری طاقت والے ملک کو محض زبانی مذمت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خطے سے متعلق امریکا کے استعماری عزائم ناکام بنانے کے لیے ایران کا بھی اسی طرح کھل کر ساتھ دینا چاہیے جس طرح اس نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں اس نے پاکستان کی عملی طور پر حمایت کر کے امریکا کے دوسرے ”فطری حلیف” بھارت کے عزائم خاک میں ملانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔