عالمی ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والے تجزیوں اور خبروں کے عین مطابق اسرائیل نے جمعہ کی صبح ایران پر حملہ کردیا جس میں ایران کے اعلی عسکری حکام سمیت اہم جوہری سائنس دان نشانہ بنے ہیں۔ متوقع حملوں کی اطلاعات کے باوجود ایران کے اہم افراد کا نشانہ بن جانا، ایرانی نظام میں موجود نقائص کی جانب اشارہ کرتاہے۔ یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ گونج رہا تھا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ میں کچھ بھی حل کر سکتا ہوں۔ ”یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاک، بھارت کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستان کی جانب امریکا کا یکایک جھکاؤ بھی اس وقت مبصرین کی گفتگو کا موضوع ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کے لیے کوئی ٹریپ بھی ہو سکتا ہے۔ اب جبکہ اسرائیل نے ایران پر باقاعدہ فضائی حملے کردیے ہیں، یہ خدشات حقیقت کا روپ دھارتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کوغزہ، فلسطین اور اب ایران کا ساتھ نہ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل نے جمعہ کی صبح ایران میں درجنوں مقامات پر فضائی حملے کیے جن میں جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ دارالحکومت تہران کے شمال مشرقی علاقے میں بھی زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور بعض مقامات سے دھویں کے بادل اٹھتے دکھائی دیے۔ ایرانی میڈیا نے تہران کے شمالی، مغربی اور وسطی علاقوں پر حملے کی تصدیق کی۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایران پر پیشگی حملہ کر دیا ہے اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔ اسرائیلی فوجی عہدیدار کے مطابق اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا اور اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں لڑاکا طیاروں نے اس حملے میں حصہ لیا۔ امریکی اخبار کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی فوجی قیادت کی رہائش گاہوں سمیت 6 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور جوہری سائنسدان فرید عباسی اور محمد مہدی ماریگئے۔ ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق تہران میں پاسداران انقلاب کے صدر دفتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس چند دنوں میں 15 جوہری بم بنانے کیلئے کافی مواد موجود ہے اور اسرائیل یہ یقینی بنا رہا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ایران پر حملے کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے، جس میں ایران کے جوہری اہداف سمیت درجنوں فوجی اہداف شامل ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے بیان دیا کہ ہم اسرائیل کی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر ہیں، ہماری لڑائی ایرانی عوام سے نہیں بلکہ ایرانی آمریت سے ہے۔
عالمی سیاسی تجزیہ کار چند ماہ سے اسی جانب اشارے کرتے چلے آرہے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ایران میں قیادت کی سطح پر تبدیلی چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل ان کے نزدیک ایران کی مزاحمتی قوت کا خاتمہ اہم ہے۔ ایران کی جانب سے ردعمل کی توقع کی جارہی ہے۔ سر دست ایرانی قیادت کا اعلیٰ سیکورٹی اجلاس جاری ہے۔ ملک میں جنگ کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔ ایران نے اپنی فضائی حدود تاحکم ثانی بند کر دی ہیں۔ ایران کی جانب سے جوابی بیلسٹک حملوں کا خدشہ ہونے کے سبب اسرائیل میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں، ہماری ترجیح خطے میں امریکی افواج کا تحفظ ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے امریکا سے کہا تھا کہ ایران کے خلاف کارروائی اپنے دفاع کے لیے ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ایران پر یہ حملے اتوار کو طے امریکا ایران بالواسطہ مذاکرات سے دو روز پہلے کیے گئے ہیں اور ایرانی حکام نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے جارحیت کی تو سخت جواب دیا جائے گا، جیساکہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اسرائیلی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو حملے کی سخت سزا ملے گی۔
ایران پراسرائیل کے اس حملے کو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بھڑکانے کی سازش سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اسرائیل غزہ، لبنان، یمن، شام اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملوں کے بعد اب ایران کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ایران پراسرائیل کے حملے میںپاکستان کیخلاف بھارتی کردار اور اس کے جارحانہ عزائم کے ساتھ ایک گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں مثالوں میں دفاعی اور جوہری قوت ہی اصل نشانہ ہے۔ گویا اسرائیل امریکی سرپرستی میں مسلم امہ کی دفاعی قوت کو سبوتاژ کرنے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ شمالی کوریا کے صدر کا بیان اس تناظر میں اہمیت کا حامل ہے کہ اسرائیل محض مشرق وسطیٰ میں ایک امریکی اڈا ہے اور یہ بنیادی طور پر کوئی ریاست نہیں۔ اس لیے اسرائیل جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ امریکی احکامات پر ہوتا ہے۔ امریکا ایک مجرم ریاست ہے اور اسے یہ سمجھنا چاہیے اور اپنے جرائم اور جرائم کی ثقافت پھیلانا بند کرنا چاہیے۔ یہ زمین پر سب سے بڑی جوہری طاقت ہے اور پہلی ریاست ہے جس نے جوہری ہتھیار استعمال کیے۔ اب تو یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ کیا تھا، جس کے موثر اور نہایت زوردار جواب کے بعد امریکا کا رویہ اچانک پاکستان کے ساتھ بہتر ہو گیا، جس کا اشارہ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کے بیان سے ملتا ہے۔ واقعات کے اس تسلسل کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا یہ خیال بے معنیٰ نہیں کہ امریکی رویہ پاکستان کیلئے ایک جال بھی ہوسکتاہے اور پاکستان کو اس وقت اپنے جوہری اثاثوں، دفاعی ماہرین، اعلیٰ عسکری قیادت اور اہم افراد کی سیکورٹی بڑھادینی چاہیے اور ان کی نقل و حرکت کو مزید مخفی رکھنا چاہیے۔
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد پاکستان کیا رویہ اختیار کرے گا؟ یہ امر تو واضح ہے کہ پاکستان بطور ریاست ایران پر حملے کیخلاف ہے تاہم اس معاملے کو مزید گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان حملے کی مذمت ضرور کرے گا لیکن عملی طورپر ہر قدم بہت دیکھ بھال کر اٹھانا ہوگا۔ بہر حال اس حملے کے نتائج خطے کیلئے نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ ایک مکمل جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے جو مشرق وسطیٰ کو مزید عدم استحکام کا شکار کر دے گی۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام پر بھی شدید دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان کو اس بحران میں ایک متوازن اور دانش مندانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسے سفارتی سطح پر تناؤ کم کرنے اور بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ اس کا کردار ایسا ہونا چاہیے جو خطے میں امن و استحکام کو فروغ دے اور پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرے۔