وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشی میدان میں بھی پاکستان ایک عظیم قوم بن کر ابھرے گی، آج وقت ہے، پوری قوم متحد ہے، ہمیں ملک کیلئے کڑے فیصلے کرنے ہیں۔پشاور میں منعقدہ جرگے میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، فیلڈ مارشل عاصم منیر، گورنرخیبر پختونخوا، قبائلی عمائدین اور قبائلی اضلاع کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی۔جرگے سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور عمائدین کی بات سنی، خیبرپختونخوا عظیم اور خوبصورت ترین صوبہ ہے، خیبرپختونخوا کے لوگوں کی تاریخ دنیا بھلا نہیں پائے گی، یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کا پرچم بلند کیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں کے پی کے عوام کی عظیم قربانیاں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین نے کہا کہ 15 سال ہوگئے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرنا ہوگی، اگست میں این ایف سی سے متعلق پہلی میٹنگ بلائیں گے اور اس پر ہم نظر ثانی کریں گے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں منعقدہ جرگے میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، فیلڈ مارشل عاصم منیر، گورنر خیبرپختونخوا، قبائلی عمائدین اور منتخب نمائندوں کی موجودی موجودہ حالات میں قوم کیلئے ایک مثبت پیغام ہے۔ اس اہم نشست میں جہاں خیبرپختونخوا کی عوامی محرومیوں، وسائل کی تقسیم، مسائل، این ایف سی ایوارڈ اور سیکورٹی کی صورتحال پر بات ہوئی، وہیں یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ریاست تمام اکائیوں کے ساتھ کھڑی اور تمام اکائیوں کو لیکر کھڑی ہے، نیز بلوچستان کے جرگے کے بعد اب کے پی کے کے اس جرگے نے یہ پیغام دیا ہے کہ قومی معاملات میں صوبے بھی وفاق اور ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔وزیراعظم نے این ایف سی ایوارڈ کے تناظر میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اگست میں اس سلسلے میں باقاعدہ اجلاس بلانے کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو خیبرپختونخوا کے مسائل پر گہرائی سے غور کرے گی۔ وزیر اعظم نے 2010ء کے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کو دہشت گردی کے خلاف دیے گئے وسائل کا حوالہ دیا اور واضح کیا کہ صوبے کو ماضی میں بھی 700 ارب روپے فراہم کیے گئے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ مرکز اور بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا، جہاں وفاقی حکومت کی کٹر سیاسی مخالف پی ٹی آئی تقریباً ایک عشرے سے زائد عرصے سے حکمران چلی آ رہی ہے، ایک میز پر بیٹھ کر معاملات و مسائل کا حل نکالنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں این ایف سی ایوارڈ ایک ایسا معاملہ ہے جو تقریباً تمام چھوٹے صوبوں اور وفاق کے مابین اکثر بڑے تنازعات اور اختلافات کا سبب بنا رہتا ہے۔ مالی وسائل کو آبادی کے لحاظ سے تقسیم کرنے کا میکنزم بنایا جائے یا اس حوالے سے رقبے اور پیداواری وسائل کو بنیاد بنایا جائے، اس پر صوبوں میں تنازعات اکثر و بیشتر سر اٹھاتے رہتے ہیں، اب اس معاملے کو کے پی کے نے اٹھایا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے صوبے کے اس مطالبے کو اہمیت دی اور آنے والے دنوں میں اس پر نظرثانی کا اعلان کیا۔ مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم ایک ایسی چیز ہے جو وفاق کی اکائیوں میں نا انصافی اور کسی کے حق میں کمی بیشی کے تاثر کو ختم کرسکتی ہے اور اسی راہ سے وفاق مضبوط ہوگا۔ مستحکم وفاق اکائیوں کے استحکام سے ہی ممکن ہے، وفاق کے اہل حل و عقد کو جتنی جلد یہ نکتہ سمجھ میں آجائے اتنا ہی خود وفاق کے استحکام اور ریاست کی سا لمیت کے تحفظ کیلئے بہتر ہوگا۔ اکائیوں میں محرومی، نا انصافی اور وسائل پر جائز حق کی عدم فراہمی کے تاثر و احساس سے وفاق اور ”وفاقیت” کی سوچ کو ہی نقصان ہوسکتا ہے۔ اگر وفاق یہ سمجھتا ہے کہ زیادہ وسائل اپنے پاس رکھ کر خود کو مستحکم کرسکتا ہے تو یہ بالکل غلط سوچ اور پالیسی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف معاملہ فہم اور لچکدار رویے کے حامل شخص ہیں اور انہوں نے کے پی کے کا مطالبہ تسلیم کرکے معاملہ فہمی کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔ اب صوبائی حکومت کو بھی اپنے سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر صوبے کے بہتر مفاد میں وفاق کی طرف دست تعاون بڑھا دینا چاہیے۔
وزیراعظم کی جانب سے پانی کے مسئلے پر چاروں صوبوں کو اعتماد میں لینے اور سندھ طاس معاہدے کے تحت ہر قطرے پر پاکستان کے حق کا ذکر بھی بروقت اور اہم معاملہ ہے۔ بھارتی آبی جارحیت سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو نئے آبی ذخائر کی تعمیر اور موجودہ وسائل کے مؤثر استعمال کی فوری ضرورت ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم کی زیر صدارت دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر آبی وسائل پر منعقدہ اجلاس بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم نے بجا طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ پاکستان کی معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے لیکن یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک ہم معاشی نظام کو شفاف نہ بنائیں، اداروں کو کرپشن، رشوت، کمیشن خوری اور کام چوری سے پاک نہ کریں اور ایک ایسا ماحول نہ بنائیں جس میں میرٹ، انصاف اور قانون کی بالادستی ہو۔ جب تک ہمارے ادارے سیاسی مداخلت سے آزاد نہیں ہوں گے اور ہر شہری کو اس کا حق نہیں ملے گا، تب تک صرف منصوبے بنانا اور اجلاس کرنا محض رسمی کارروائی سمجھی جائے گی۔
اندرونی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے ہر طبقے میں پائے جانے والے احساسِ محرومی کا ازالہ کیا جائے۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں، جیسے کہ قبائلی اضلاع، بلوچستان اور اندرونِ سندھ کے عوام کو قومی دھارے میں مکمل طور پر شامل کیا جائے۔ ان کی تعلیمی، طبی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جائے۔ ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل، روزگار کے مواقع، اور امن و امان کی بہتری ریاستی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ قومی سطح پر معاشی فیصلے کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان نہ ہو۔ پاکستان کی سیاست کو ذاتی مفادات سے نکال کر اجتماعی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارا سیاسی کلچر اب بھی ذاتی دشمنیوں، اقتدار کی ہوس اور الزام تراشیوں میں الجھا ہوا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان میں ایک میثاقِ معیشت پر تمام سیاسی قوتیں یک زبان ہوں اور متفقہ روڈ میپ طے کریں تاکہ کوئی بھی حکومت آئے، قومی معیشت کی سمت تبدیل نہ ہو۔