مہذب دنیا کو بدمعاش ریاستوں کا علاج ڈھونڈنا ہوگا

شامی سرکاری خبر رساں ایجنسی (سانا)نے اطلاع دی ہے کہ جمعے کی شب اسرائیلی فوج نے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقوں اور حماہ کے قریب علاقوں پر نئی فضائی بمباری کی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اللاذقیہ اور ادلب کے علاقوں میں بھی حملے کیے گئے۔ شام میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے ادارے ”سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس” نے بتایا کہ اسرائیل نے پورے شام میں 20 سے زائد فضائی حملے کیے، جن میں اسلحہ کے گوداموں اور فوجی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

ادارے نے مزید کہا کہ یہ حملے سال 2025 کے آغاز سے اب تک کے سب سے شدید تھے۔ یاد رہے کہ اس سے ایک دن پہلے اسرائیلی فضائیہ نے دمشق کے صدارتی محل کے قریب واقع عمارت پر بمباری کی تھی۔ اسرائیلی فوج شام پر یہ حملے اقلیتی دروز آبادی کے تحفظ کے نام پر کر رہی ہے ۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسرائیل نے 2025 کے آغاز سے اب تک شام میں 50 سے زائد حملے کیے ہیں، جن میں 44 فضائی اور 8 زمینی حملے شامل ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 33 افراد شہید جبکہ تقریباً 79 اہداف (جن میں شامی فوج کے اسلحہ اور گولہ بارود کے گودام، ہیڈکوارٹرز، مراکز اور گاڑیاں شامل ہیں) تباہ یا زخمی ہوئے۔ یہ حملے اسرائیل کی اس جاری مہم کا حصہ ہیں، جس کے تحت وہ شام میں اسلامی حکومت کی فوجی صلاحیت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو دسمبر میں اقتدار میں آئی تھی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دمشق میں صدارتی محل کے قریب ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کی مذمت کی۔ سعودی عرب ، قطر سمیت متعد د عرب ممالک نے بھی دمشق کے صدارتی محل پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ اور شامی انقلاب کے نتیجے اسلامی تشخص کی حامل نئی حکومت کا قیام اسرائیل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہورہا ہے اور قابض وناجائز صہیونی ریاست کو نظر آ رہا ہے کہ شام میں عوامی حمایت رکھنے والی ایک مستحکم حکومت اس کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل شروع دن سے سازشوں میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح سے اس حکومت کو چلنے نہ دیا جائے اور بغاوت کرواکر اس کا خاتمہ کردیا جائے۔ چند ہفتے پہلے اسرائیلی ایجنسیوں نے سابق ڈکٹیٹر بشار الاسد کے نصیری گروہ کے کچھ لوگوں کو مسلح کرکے ان کے ذریعے بغاوت کرانے کی کوشش کی جسے شامی سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنادیا۔ اب دروزی گروہ کے مٹھی بھر عناصر کو حکومت کے خلاف میدان میں لانے کی کوشش کی گئی جسے بھی شامی سیکیورٹی فورسز نے بھرپور طاقت سے کچل دیا۔ اپنی اس ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے اسرائیل نے شام کے صدارتی محل کے قریب حملہ کیا ہے اور شامی فوج کی اہم تنصیبات کو ایک بار پھر نشانہ بنایا ہے جس کا بظاہرمقصدشامی حکومت کو ڈرانا ہے تاہم شامی حکومت نے صاف لفظوں میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی شام کے معاملات میں دخل اندازی قابل قبول نہیں ہے۔

جس وقت شام کی حزب اختلاف نے ایک بھر پور انقلابی تحریک کے نتیجے میں بشار الاسد کو نکال کر دمشق کا اقتدار سنبھالا تھا، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مشرق وسطی کا نقشہ بدلنے کی اسرائیل کی پالیسی کی کامیابی ہے۔ اسلامی دنیا میں بھی کچھ حلقے خیال ظاہر کررہے تھے کہ بشار الاسد حکومت کا خاتمہ اسرائیل کی کامیابی ہے کیونکہ اس نے ایران کے نام نہاد محور مقاومت کو توڑا ہے مگر مشرق وسطی کے حالات کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین نے اسی وقت کہا تھا اور ہم نے بھی ان سطور میں یہ گزارش کی تھی کہ اسرائیل شام میں آنے والی تبدیلی پر اوپر سے جتنی خوشی کا اظہار کر رہا ہے، اندرسے وہ اتنا ہی خوف زدہ ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ اس کے پڑوس میں اب ایسے لوگ آگئے ہیں جو بشار الاسد رجیم کی طرح نمائشی طور پر اسرائیل مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے وہ سرفروش ہیں جو آگے چل کر اسرائیل کے لیے حقیقی معنوں میں لوہے کے چنے ثابت ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ اسی خوف کے زیر اثر اسرائیل نے شامی انقلاب کے فوراً بعد ہی شام میں متعدد علاقوں پر بمباری شروع کردی۔وہ مبینہ کیمیائی ہتھیار جو بشار الاسد کے دور میں اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے، اچانک سے اب ”خطرہ” بن گئے اور اسرائیل نے ان تمام مقامات پر بم گرائے جہاں بشار الاسد کے دور میں ہتھیاروں کے ذخیرے موجود ہوسکتے تھے۔ اسرائیل کے اس اقدام نے دنیا پر اور شامی عوام پر یہ واضح کردیا کہ اسرائیل کس کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احمد الشرع کی قیادت میں بننے والی نئی انقلابی حکومت کو شامی عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ڈیڑھ عشرے سے خانہ جنگی کا شکار اس ملک میں استحکام آنے لگا۔ نئی حکومت نے ترکوں، کردوں اور یہاں تک کہ دروزیوں کو بھی حکومت میں شمولیت پر راضی کیا۔ وہاں اب ایک ایسی حکومت قائم ہے جس میں ملک کی تمام نسلی و مذہبی اقلیتوں کی موثر نمایندگی موجودہے۔ شام کی دروزی اقلیت کے اکثر طبقات بھی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں اور وہ بھی حکومت کا حصہ ہیں البتہ اس فرقے میں ایک اقلیتی گروہ ایسا ہے جو اسرائیل نوازہے۔ دروز وہ واحد عرب طبقہ ہے جو اسرائیلی فوج میں بھی شامل ہے۔ یہ لوگ اب شام کے دروزیوں کو نئی شامی حکومت کے خلاف اکسارہے ہیں تاکہ شام میں اسرائیلی کارروائیوں کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ چنانچہ اسرائیل اب دروزیوں کے تحفظ کے نام پر ہی شام کے اندر مداخلت کر رہا ہے مگر جیساکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کہا ہے یہ کوئی جواز نہیں ہے۔

اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے مگر کیا کیجیے کہ وہ یہ خلاف ورزی پہلی بار اور صرف یہاں نہیں کر رہا۔اس کی جانب سے گزشتہ دو ماہ سے غزہ کے تیس لاکھ باسیوں کا محاصرہ اور ان پرخوراک اور پانی بند کردینا اس سے بھی بڑا جرم ہے مگر وہ یہ جرم پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کر رہا ہے، اس لیے کہ اس کے پیچھے امریکا ہے جو اپنے خبطی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں دنیا کا غنڈہ بنا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ غنڈہ گردی آخر کب تک چلے گی؟ مہذب دنیا کو امریکا اور اسرائیل جیسی بدمعاش ریاستوں کا کوئی علاج تو ڈھونڈنا پڑے گا، ورنہ کرہ ارض فساد سے بھر جائے گا اور انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔