چینی صدر شی جن پنگ نے 20اور 21اپریل 2015کو پاکستان کا دورہ کیا تھا، یعنی چینی صدر کے تاریخی دورہ پاکستان کو دس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ دورہ پاکستان کی ترقی کے حوالے سے کئی اعتبار سے یادگار رہا۔ اس دورے سے پاک چین سفارتی تعلقات سمیت معاشی دفاعی اور تزویراتی تعاون کو نئی جہت ملی اور دونوں نے دنیا کی پہلی All Weather Strategic Cooperative Partnership قائم کی۔
صدر شی کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے مابین51 معاہدوں پر دستخط ہوئے اور عظیم انقلابی منصوبے سی پیک کی بنیاد رکھی گئی۔ بلاشبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو 21ویں صدی کا کامیاب ترین پروجیکٹ ہے۔ صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے مابین جن عملی تعلقات کی بنیاد پڑی اس کی بدولت آج دونوں ملک اقتصادی راہداری کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے سی پیک پراجیکٹ کے تحت 18ہزار کلو میٹر روڈ کی تعمیر کی۔
صدر شی جن پنگ کو دورہ پاکستان کے موقع پر دوستی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے 40منٹ کا تاریخی خطاب کیا تھا۔ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دس سال مکمل ہونے پر پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ ژی ڈونگ نے دونوں آئرن برادرز کی لازوال دوستی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دہائی میں چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر ابھرا ہے۔ سی پیک ایک خواب سے حقیقت میں بدل چکا ہے۔ ان برسوں میں گوادر بندرگاہ کو اپ گریڈ کرنے سمیت چین کی طرف سے پاکستان میں لگائے گئے تھرمل پن بجلی وِنڈ شمسی توانائی اور دیگر پاور پروجیکٹس نے یہاں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے میں مدد دی۔
اسی طرح چین کے تعاون سے لاہور میں اور نج لائن ٹرین کا آغاز ہو چکا ہے۔ خنجراب پاس اب پورا سال کھلا رہتا ہے۔ K2 اور K3 نیوکلیئر پاور پلانٹس مکمل کرنے کے بعد انہیں آپریشنل کر دیا گیا ہے۔ C5 نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ ہمارے مرکزی بینکوں نے کرنسی سویپ معاہدے کو توسیع دی ہے۔ چین کے RMBکلیئرنگ بینک نے پاکستان میں اپنے آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں نے سلامتی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے اعلی معیار کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کیں۔ گزشتہ سال چین کے اعزازی دستے اور Augast 1ایروبیٹکس ٹیم نے یوم پاکستان کی پریڈ میں شرکت کی جبکہ چین کے VT-4مین بیٹل ٹینک J-10CE لڑاکا طیارے اور AP-054فریگیٹس پاکستان کی مسلح افواج کو فراہم کیے گئے ہیں۔ رواں صدی کی بدترین کورونا وبا کے دوران دونوں ملکوں نے اپنے لوگوں کے تحفظ کیلئے مل کر کام کیا۔ 2022 میں پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب میں چین نے پاکستان کو 260ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ دونوں حکومتوں نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹیو پر مشترکہ طور پر تعاون کو فروغ دینے کے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔
اس میں دو آرا نہیں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران صدر شی جن پنگ کا پاک چین تعلقات کو فروغ د ینے میں اہم کردار رہا ہے۔ بے شک چین اور پاکستان دو بالکل مختلف قومیں ہیں جن کا مذہب عادات و اطوار ثقافت زبان اور کھانا پینا مختلف ہے لیکن صدر شی جن پنگ نے ہمیں آئرن برادر بنا دیا ہے۔ در حقیقت ہمیں چین سے اس کا ترقی کا راز جاننے کی ضرورت ہے کہ کس طرح تباہ حال چینی نہ صرف سنبھلے بلکہ ان کے بے مثل عزم و استقلال نے معاشی و عسکری طور پر خود کو منواتے ہوئے عالمی سپر پاور امریکا کو ہر میدان میں مات دینا بھی شروع کر دی۔ چینیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک قوم بن چکے ہیں اور ہم ابھی تک قوم بننے کی کوشش میں ہیں۔ یاد رہے کہ ہم بھی 1974تک معاشی لحاظ سے ایشین ٹائیگر تھے۔
ماضی کے اوراق میں جھانکیں تو پتا چلتا ہے پاکستان ایک وقت میں چین کیلئے رول ماڈل تھا جب پیکو انڈسٹریز لاہور میں چینی صدر کا ایک گھنٹے کا وزٹ 8گھنٹوں پر محیط ہو گیا تھا۔ وہ پاکستان میں انجینئرنگ کی ترقی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ جب میں اور میرے والد محترم جنرل حمید گل شنگھائی گئے تھے تو ہم شنگھائی کی روشنیاں اور رعنائیاں دیکھ کر دم بخود رہ گئے تھے۔ شنگھائی کے میئر کی جانب سے کھانے کی دعوت پر میرے والد نے پوچھا کہ آپ کی ترقی کا راز کیا ہے؟ انہوں نے بہت اچھی اردو میں بتایا کہ جنرل صاحب میں جب کراچی میں پڑھتا تھا تو اس کی کشادہ سڑکیں روشنیاں کاروبار کی وسعتیں دیکھ کر سوچتا تھا کہ کبھی میرا ملک بھی اتنی ترقی کرے گا۔ چین نے ہمیں رول ماڈل بنا کر ترقی کر لی لیکن افسوس کہ ہم ترقی کی راہ سے بھٹک گئے۔ امریکہ کے ساتھ ہماری مجموعی سالانہ تجارت چھ ارب ڈالر سے زائد ہے پھر بھی امریکہ پاکستان سے ہمیشہ ڈو مور کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ لیکن ایران سے تجارت ہماری اولین ترجیح کب بنے گی؟ ایرانی صدر احمدی نژاد نے میرے ساتھ ایک ملاقات میں کہا تھا کہ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ میں پاکستان کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتا۔ اگر ہم پاکستان کے ساتھ بارٹر تجارت کا ہی باقاعدہ آغاز کر دیں تو اس کا سالانہ حجم 15ارب امریکی ڈالر سے زائد ہو گا۔
سوچیے اگر بیرونی تجارت پر خرچ کرنے کی بجائے ڈالر ملک کے اندر ہی رہے گا تو روپے کے مقابلے میں اس کی قدر کم ہو گی۔ اس کیلئے ہمیں امریکی کالونی سے باہر نکلنا ہو گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ چین کے ساتھ تجارت پر توجہ مرکوز کی جائے اسے پاکستان میں مزید صنعتیں لگانے کی طرف راغب کیا جائے اس سے پاکستانیوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان میں چائنا ونڈو سینٹرز کام کر رہے ہیں جن کا کام یہ ہے کہ تاجروں کی رہنمائی کیلئے Concentration سینٹرز قائم کیے جائیں۔ علاوہ ازیں Pak China Trade Houseکا قیام بھی بہت ضروری ہے۔ چین سے تجارت میں اضافے کیلئے حکومت کو مزید موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس وقت چین کی بھارت کے ساتھ کشیدگی کے باوجود دو طرفہ سالانہ تجارت کا حجم 100 ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ ہمیں بھی اپنا راستہ متعین کرنا ہوگا۔
موجودہ تناظر میں چین اور ایران ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ ہمیں اپنے بارڈر محفوظ بنانے کے ساتھ اپنی معیشت کو بھی مستحکم کرنا ہے۔ امریکی کرنل Peter Ralphنے 2006میں دنیا کے سب سے بڑے دفاعی میگزین امریکی ڈیفنس جرنل میں Blood Borders کے عنوان سے ایک خونی نقشہ پیش کیا تھا جس کے مطابق پاکستان اور ایران کے بلوچستان پر مشتمل علاقوں کو ملا کر ایک آزاد بلوچستان بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہی استعماری قوتوں کا اصل ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کیلئے بلوچستان کو دہشت گردی کی آگ میں جلایا جا رہا ہے۔ سارہ ایڈمز یو ایس کاونٹر انٹیلی جنس ہیڈ نے اپنے ایک تین گھنٹے کے پوڈ کاسٹ میں اعترف کیا تھا کہ پشتونستان بنانے کیلئے سی آئی اے میں خصوصی سیل قائم کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اپنی افواج کے انخلا کے وقت امریکا افغانستان میں آٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ کیوں چھوڑ کر گیا؟
آج پاکستان کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ سی پیک عالمی سامراج کے نشانے پر ہے۔ اس کیلئے سپیشل سکیورٹی ڈویژن جس میں 27بٹالینز ہیں قائم کیا گیا ہے۔ بلوچستان بالخصوص گوادر میں ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے دہشت گرد تنظیم بی ایل اے اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہے اس کی لیڈر شپ جنیوا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ میں واضح کر دوں کہ امریکا ہمارا دوست ہرگز نہیں۔ دوسری جانب چین کو بھی تمام معاملات اپنے تناظر میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ امریکا مشکل وقت میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں ملٹری سفارتی اور سیاسی سپورٹ مہیا کرتا رہا ہے۔ یوکرین جنگ اس کی مثال ہے۔ کیا چین پاکستان کے ساتھ ایسے کھڑا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔