کسی بھی عمارت کے لیے بنیاد کا درست اور صحیح ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر بنیاد کا پتھر ٹیڑھا رکھ دیا جائے تو خوبصورت ترین عمارت کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسی طرح تمام اعمال اور کاموں کے لیے بھی اخلاصِ نیت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اخلاص کے بغیر کوئی کام بھی اہمیت نہیں رکھتا۔ اخلاص کے ساتھ کیا گیا چھوٹا سا کام اور عمل بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر آپ کی نیت درست ہے تو اللہ تعالیٰ کے دربار میں وہ قبولیت حاصل کرے گا۔ اگر نیت میں فتور ہے تو بڑے سے بڑا عمل بھی کسی کام کا نہیں۔ نیت کے مطابق ہی اجر و ثواب ملتا ہے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے چند احادیث ملاحظہ کیجیے: حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار صرف نیت پر ہے۔ آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔” مثلاً: جس نے اللہ اور رسول کے لیے ہجرت کی ہوگی، واقعی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی۔ جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے ہی شمار ہوگی۔ اس حدیث کی تشریح میں محدثین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اصلاح و تربیت کے باب کی نہایت اہم حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اگر نیت ٹھیک ہے تو اس کا ثواب ملے گا ورنہ نہیں ملے گا۔ کوئی عمل چاہے وہ دیکھنے میں نیک ہو، اس کا اجر آخرت میں صرف اسی صورت میں ملے گا جبکہ وہ خدا کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہو۔
اگر اس عمل کا محرک دنیا کی طلب ہو، اگر اسے کسی اپنی دنیاوی غرض پوری کرنے کے لیے ہی انجام دیا گیا ہو تو آخرت کے بازار میں اس کی کوئی قیمت نہ لگے گی۔ اس کا یہ عمل وہاں کھوٹا سکّہ قرار پائے گا۔ اس حقیقت کو آپ علیہ السلام نے ہجرت کی مثال دے کر واضح فرمایا کہ دیکھو! ہجرت جتنا بڑا نیکی کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص خدا اور رسول کے لیے نہیں بلکہ اپنی دنیاوی غرض پوری کرنے کے لیے ہجرت یعنی ترکِ وطن کرتا ہے تو آخرت میں اسے اس عمل کا جو بظاہر بہت بڑی نیکی ہے، کچھ ثواب نہ ملے گا، بلکہ اُلٹا اس پر جعل سازی اور فریب دہی کا مقدمہ قائم ہوگا۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تمہاری شکل و صورت اور تمہارے مال کو نہ دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھے گا۔” حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا جس نے شہادت پائی ہوگی۔ اسے خدا کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا۔ پھر خدا اسے ان سب میں یاد دلاے گا۔ وہ انہیں تسلیم کرے۔
تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ”تو نے میری نعمتیں پا کر کیا کام کیے؟” وہ عرض کرے گا:”میں نے تیری خوشنودی کی خاطر تیرے دین سے لڑنے والوں کے خلاف جنگ کی، یہاں تک کہ میں نے اپنی جان دے دی۔” اللہ اس سے کہے گا: ”تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے صرف اس لیے جنگ کی اور جان کی بازی لگائی کہ لوگ تجھے جری اور بہادر کہیں۔ سو! دنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔” پھر حکم ہوگا کہ اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اور جہنم میں ڈال دو۔ چنانچہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک اور شخص کو اللہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا جو دین کا عالم و معلّم ہو گا۔ خدا اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا۔ وہ بھی انہیں تسلیم کرے گا۔ تب اس سے کہے گا: ”ان نعمتوں کو پا کر تو نے کیا عمل کیے؟” وہ عرض کرے گا: ”خدایا! میں نے تیری خاطر دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اس کی تعلیم دی اور تیری خاطر قرآن مجید پڑھا۔ ” اللہ فرمائے گا: ”تم نے جھوٹ کہا۔ تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھا کہ لوگ تمہیں عالم کہیں۔ قرآن مجید اس غرض سے تم نے پڑھا تھا کہ لوگ تمہیں قرآن کا جاننے والا کہیں۔ سو!تمہیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔ ” پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اور جہنم میں پھینک دو، چنانچہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کشادگی بخشی تھی۔ ہر قسم کی دولت سے نوازا تھا۔ ایسے شخص کو اللہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی سب نعمتیں بتائے گا۔ وہ ساری نعمتوں کا اقرار کرے گا: ”ہاں! یہ سب نعمتیں اسے دی گئی تھیں۔” تب اس سے اس کا رب پوچھے گا: ”میری نعمتوں کو پا کر تو نے کیا کام کیے؟” وہ جواب میں عرض کرے گا: ”جن جن راستوں میں خرچ کرنا تیرے نزدیک پسندیدہ تھا، ان سب راستوں میں، میں نے تیری خوشنودی کے لیے خرچ کیا۔ ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”جھوٹ کہا تو نے۔ یہ سارا مال تو نے اس لیے لٹایا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، سو! یہ لقب دنیا میں تجھے مل گیا۔” پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو، چنانچہ اسے لے جا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔”
اوپر کی تینوں روایتیں جس حقیقت کو وضاحت سے سامنے لاتی ہیں وہ یہ ہے کہ آخرت میں کسی نیک کام کی ظاہری شکل پر کوئی انعام نہیں مل جائے گا۔ وہاں تو صرف وہی کام اجر و ثواب کا مستحق ہوگا جسے خالصتاً خدا کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہوگا۔ بڑے سے بڑا نیکی کا کام اگر اس لیے کیا گیا ہے کہ دوسرے اس سے خوش ہوں یا لوگوں کی نگاہ میں اس کی وقعت بڑھے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ آخرت کے بازار میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ یہ عمل خدا کی میزان میں کھوٹا بلکہ جعلی سکّہ قرار پائے گا۔ نہ ایسا ایمان وہاں کام آئے گا اور نہ ایسی عبادت قبول ہوگی۔ اب ایک خیرالقرون کا تاریخی واقعہ پڑھیے: ”مسجد نبوی کے قریب ایک شخص نے لکڑی کا کلّہ اور کھونٹا زمین میں گاڑ دیا۔ اس کی نیت یہ تھی کہ اگر کوئی مسافر شخص اونٹ یا گھوڑے پر دور دراز سے سفر کرکے آئے تو اس کلّے اور کھونٹے کے ساتھ اپنے گھوڑے کی لگام یا اونٹ کی نکیل کو باندھ دے۔ ایک دوسرے شخص نے رات کے وقت مسجد نبوی کے سامنے جب زمین میں یہ کلّہ اور کھونٹا گڑھا ہوا دیکھا تو اس نے اس کو اکھیڑ دیا۔ اس نیت سے اکھیڑا کہ رات کے وقت اگر کوئی بوڑھا اور بزرگ شخص اندھیرے میں فجر اور عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے آیا تو ٹھوکر لگنے سے گر نہ جائے۔”
آپ اس واقعے کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ دیکھیں نیت دونوں کی درست تھی۔ کلّہ لگانے والے اور کلّہ اکھیڑنے والے دونوں افراد کی نیت درست اور صحیح تھی۔ آپ کوئی بھی کام کریں۔ تجارت کریں۔ کاروبار کریں۔ ٹیچنگ کریں۔ دکانداری کریں۔ ڈرائیونگ کریں۔ سیاحت کریں۔ تبلیغ کریں۔ امام و خطابت کریں۔ صحافت و جرنلزم کریں۔ خدمت کریں۔ زراعت کریں۔ چوکیداری کریں۔ کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کریں۔ ڈاکٹری اور نرسنگ کریں۔ پلمبری کریں۔ باورچی کا کام کریں۔ بیسیوں سیکڑوں کاموں میں سے کوئی بھی کام کریں، لیکن اپنی نیت درست رکھیں۔ آپ کا کام اخلاص پر مبنی ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ذات، اپنی قوم، اپنے خاندان، اپنے ملک کے ساتھ ہر انسان کو مخلص ہونا چاہیے۔ دو رُخا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اپنے ظاہر اور اپنے باطن کو ایک جیسا رکھیں۔ وہ کیا خوب کہا ہے کسی نے ”اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی… تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن…” ہر انسان کو کم از کم اپنے ساتھ تو مخلص ہونا ہی چاہیے۔ اپنے ساتھ مخلص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھے۔ اپنی صحت پر کمپرومائز نہ کرے۔ اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت کریں۔ جو کام بھی کریں ڈٹ کر کریں۔ معیاری کام کریں۔ گرمی ہو یا سردی، خوشی ہو یا غمی، بہار ہو یا خزاں اس پر اپنے ہی کام کی دھن سوار ہو۔ ‘من جد وجد’ کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ لگا رہتا ہے وہ کام ضرور ہوتا ہے۔ جو شخص خلوصِ نیت کے ساتھ بند دروازہ مسلسل کھٹکھٹاتا رہتا ہے وہ کھل ہی جاتا ہے۔ یاد رکھیں! کامیابی کے بنیادی عناصر میں سے پہلا عنصر اخلاصِ نیت ہے۔ آپ اخلاص کو بنیاد کا پتھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ٹیڑھے ہونے سے سب کام اور اعمال بگڑ سکتے ہیں اور اس کے صحیح ہونے سے بگڑے ہوئے کام بھی بن سکتے ہیں۔ یہ مسلّمات میں سے ایک اَٹل حقیقت پر مبنی اُصول ہے۔