جاوید اختر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے نامور کہانی نویس، منظر نگار اور گیت نگار ہیں۔ وہ اعلانیہ ملحد ہیں اور اس پر انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ ان کے بچے زویا اختر اور فرحان اختر بھی اسی نظریے کے علمبردار ہیں۔ ان کی بیوی ہنی کا تعلق ایران سے ہے اور وہ زرتشتی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر ہم اس خاندان کی ہسٹری دیکھیں تو حیران کن حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جاوید اختر کے والد جانثار اختر مشہور ترقی پسند شاعر تھے۔ ان کے والد مضطر خیرآبادی اُردو ادب کا بڑا نام تھے۔ اس سے بھی پیچھے جائیں تو احمد حسن رسوا بھی اُردو کے نامور شاعر تھے۔ احمد حسن کے والد علامہ عبدالحق خیرآبادی اپنے وقت کے بڑے عالم دین تھے۔ انہوں نے تسہیل الکافیہ، شرح مرقات، حاشیہ حمداللہ، حاشیہ مسلم الثبوت اور حاشیہ قاضی مبارک جیسی علمی و دینی کتب تصنیف کیں تھی جو آج بھی برصغیر کے مدارس کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ان کے والد علامہ فضل حق خیرآبادی تھے جو تحریک آزادی کے عظیم رہنما، مفتی اور عالم دین تھے۔ وہ پہلے عالم دین تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد جاری کیا تھا اور اسی جرم میں انہیں کالے پانی کی سزا پائی ہوئی اور وہیں ان کا جنازہ اٹھا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کے والد علامہ فضل امام خیرآبادی تھے جنہوں نے شفا ابن سینا کی تلخیص کی اور منطق کی مشہور کتاب ”کتاب المرقات” تصنیف کی تھی۔ یہ علمی و دینی خانوادہ صدیوں پر محیط روایت کا امین تھا مگر آج اس خانوادے کے فکر و فہم کی عظیم میراث جاوید اختر اور ان کے بچوں تک آ کر دم توڑ چکی ہے۔
یہ المیہ صرف ایک خاندان تک محدود نہیں بلکہ اس صف میں کئی نامور نام آتے ہیں۔ پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے مشہور اداکار سعود کاظمی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا تعلق مولانا قاسم نانوتوی کے خاندان سے ہے۔ وہی مولانا قاسم نانوتوی جنہوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور علم و فکر کی ایک نئی تحریک برپا کی۔ مولانا قاسم نانوتوی کے صاحبزادے کا نام مولانا احمد نانوتوی تھا، قاری طیب صاحب مولانا احمد نانوتوی کے بیٹے تھے اور رشتے میں سعودکاظمی کے والد کے تایا تھے۔ نوازالدین صدیقی جو بھارتی فلم انڈسٹری میں اہم مقام رکھتے ہیں ان کا تعلق بھی اسی نانوتوی خاندان سے ہے۔ عامر خان بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار اور سپر سٹار ہیں، ان کی دادی آمنہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بہن فاطمہ کی سگی بیٹی تھیں۔ وہی مولانا ابوالکلام آزاد جو نہ صرف جید عالم دین تھے بلکہ تحریک آزادی ہند کے رہنما، صحافی اور مفسر قرآن بھی تھے۔ پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کے مشہور اداکار گوہر رشید علامہ غلام احمد پرویز کے نواسے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ٹھیٹھ مذہبی خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود مذکورہ خاندانوں میں بے دینی اور الحاد کیسے در آیا؟ اس کی متعدد وجوہا ت ہیں، مثلاً جب کسی خاندان میں مذہب اور اہلِ مذہب کا مذاق اڑانا معمول بن جائے تو یہ محض زبان کی لغزش نہیں رہتی بلکہ ایک فکری رویہ بن جاتا ہے جو آہستہ آہستہ دلوں سے دین کی حرمت اور سنجیدگی کو مٹا دیتا ہے۔ قرآن بار بار خبردار کرتا ہے کہ اللہ کی آیات کا مذاق نہ اڑاؤ کیونکہ یہ رویہ دل کو سخت اور آنکھوں کو اندھا کر دیتا ہے۔ جب کسی خاندان کے بچے اپنے مسلسل یہ رویہ دیکھتے ہیں جس میں دین کے شعائر، علماء یا دینی تعلیمات کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر دین کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنے والی نسلیں مذہب کے احترام کے بجائے اسے محض سماجی روایت اور فرسودہ نظریہ تصور کرتی ہیں اور اس طرح دین ان کی زندگیوں سے نکل جاتا ہے۔
دوسری وجہ عقلیت پسندی ہے۔ عقل اور وحی کا صحیح مقام یہ ہے کہ عقل رہنمائی کے لیے وحی کی محتاج رہے، مگر جب انسان وحی کو پسِ پشت ڈال کر محض اپنی عقل کو فیصلوں کا آخری معیار بنا لیتا ہے تو وہ حقیقت کو محدود انسانی فہم کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں جتنے بھی فکری انحرافات پیدا ہوئے اُن کی جڑ میں وحی سے بے نیازی اور عقل پر غیرمشروط اعتماد کارفرما تھا۔ وحی انسان کو کائنات کے محدود فہم سے نکال کر اس کائنات کی حقیقتوں سے جوڑتی ہے اور عقل کو وحی سے الگ کر دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی صاحب علم کیوں نہ ہو، وہ اپنی زندگی کے بڑے سوالات مثلاً مقصدِ حیات، خیر و شر اور آخرت کے انجام کو درست طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اس رویے کا سب سے زیادہ نقصان اگلی نسلوں کو ہوتا ہے جو دین کے حقیقی تصور کو جاننے کے بجائے محض عقلی مفروضوں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔
خواہشات کی غلامی بھی ایک وجہ ہے۔ خواہشات انسان کو بے لگام کر دیتی ہیں اور اس کی فطرت مسخ کر دیتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ جو شخص اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لے وہ گمراہی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ جب نسلوں کی تربیت خواہشات کی بنیاد پر ہو، ان کے فیصلے مادی منفعت، شہرت اور وقتی فائدے پر ہوں تو دین پر استقامت باقی نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی نسل دین کو صرف اسی حد تک قبول کرتی ہے جہاں تک وہ ان کی خواہشات سے نہ ٹکرائے۔ ایک بڑی وجہ اولاد کی دینی تربیت سے غفلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ اگر والدین اولاد کو دینی ماحول فراہم نہ کریں، دین کے احکام کو روزمرہ زندگی میں نہ برتیں اور محض دنیاوی کامیابی کو معیار بنائیں تو بچے بھی اسی کو کامیابی سمجھنے لگتے ہیں۔
ایک اہم وجہ دینی و دنیاوی تعلیم میں اعتدال کا نہ ہونا ہے۔ دنیاوی علم بلاشبہ ضروری ہے مگر جب اسے دین کے علم پر ترجیح دی جائے اور وحی کے علم کو غیرمتعلق سمجھا جائے تو نئی نسل کے ذہن میں دین محض ایک تاریخی یا ثقافتی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ دینی علم انسان کو اپنی اصل پہچان، مقصدِ زندگی اور اخلاقی بنیادیں سکھاتا ہے اور جب نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں یہ پہلو کمزور پڑ جائے تو ان کی سوچ سے اللہ کا تصور، آخرت کا خوف اور حلال و حرام کی تمیز مٹنے لگتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ظاہری طور پر تو ترقی یافتہ بن جاتے ہیں مگر باطنی طور پر ایمان کی روشنی سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ محرومی نسل در نسل چلتی ہے۔