محکمہ مال، اور مال، اور مال

بہار کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ بہار موسم کے لحاظ سے بھی اور جوانی کے اعتبار سے بھی۔ نیا نیا پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا تھا، سو نہر کنارے، رومان پرور نیو کیمپس اس پر مستزاد۔ گیارہ بجے کے قریب کلاسوں میں ایک گھنٹے کا وقفہ ملا تو حسبِ معمول کیفے ٹیریا کی طرف روانہ ہوئے جہاں گرما گرم سموسے راہ دیکھتے تھے۔ چائے اور سموسوں کے بیچ بات کا رخ اس طرف مڑ گیا کہ ایم اے کی ڈگری کے بعد کس کا کیا ارادہ ہے؟ اس زمانے میں ہر ایک کو یہی لگتا تھا کہ میں نے اپنے ذہن میں مستقبل کا جو خاکہ بنایا ہے وہ غلط ہے’ یہ جو میرا کلاس فیلو اپنا ارادہ بتا رہا ہے’ دراصل شاندار مستقبل اسی میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے تجسس رہتا تھا کہ دوسروں کے عزائم معلوم ہوں۔ اظہر نے کہا: بات یہ ہے کہ میں تو پہلے سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہوں۔ یونیورسٹی میں داخلہ اس لیے لیا ہے کہ ساتھ ساتھ ایم اے بھی ہو جائے تو فائدہ ہوگا ورنہ جانا تو سول سروس میں ہی ہے۔ جمیل کے والد واپڈا کے بڑے افسر تھے’ اس کا ارادہ بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کا تھا۔ سو اس کی راہ بھی متعین تھی۔ میں نے تذبذب کے بعد کہا کہ تم لوگوں کے پلان اچھے لگتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا مزاج کسی بھی طرح کی سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت کیلئے موزوں نہیں ہے۔ میں ہمیشہ اس میں مِس فٹ رہوں گا۔ اس لیے شاید ڈگری کے بعد میرے لیے خاندانی کاروبار ہی بہتر رہے۔ وسیم کے گھرانے کے حالات زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس وقت بھی وہ ایک دو جگہ ٹیوشن پڑھا کر اپنے خرچ پورے کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے تو کسی بھی طرح کی ملازمت فوری چاہیے۔ سرکاری’ غیر سرکاری’ کوئی بھی۔ اس لیے پہلی اچھی آفر ملی تو میں قبول کر لوں گا۔ سب کے رخ عابد کی طرف مڑ گئے جو ٹولی کا آخری فرد تھا۔ عابد دیہی علاقے سے تھا۔ قدرے لمبا قد’ بڑی بڑی گھنی مونچھیں’ سانولا رنگ۔ ہمیشہ کرتا شلوار پہنتا اور بارعب نظر آتا تھا۔ عابد نے ایک لمحہ انتظار کیا اور پھر بولا: ”میرا معاملہ طے ہے۔ میں ڈگری کرکے تحصیلدار بنوں گا ورنہ پٹواری۔ میرے گھر والوں نے یہی طے کیا ہے اور یہی میری بھی خواہش ہے۔” ہم سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ یہ پیشہ ہمارے وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ ہم جو بڑے بڑے افسر بننے کے خواب دیکھتے تھے اورعمر چھوٹے بڑے شہروں میں گزری تھی’ نہ تحصیلدارکے منصب سے پوری طرح واقفیت تھی نہ پٹواری سے۔ پٹوار خانے کا نام اخباروں میں ضرور پڑھا تھا یا پھرکسان کے حوالے سے فیض کی نظم کے مصرعے ذہن میں گونجتے تھے:
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے

تحصیلدار اور پٹواری؟ یہی ذہن میں آتا تھا کہ یہ کوئی افسرانہ ملازمتیں نہیں ہیں اور نہ ایم اے پاس کے شایانِ شان کوئی منصب۔ اس لیے سب نے عابد پر سوالات اور جگتوں کی بوچھاڑ کر دی۔ خلاصہ یہی تھا کہ یہ کیا پاگل پن ہے؟ ایم اے کرکے اگر پٹوار خانے میں ہی جانا ہے تو بہتر نہیں ہے کہ اپنا زمیندارہ کرو اور فصلیں اگاو۔ عابد نے پراعتماد لہجے میں کہا: یہ تم اس لیے کہہ رہے ہو کہ تم نے تحصیلدار اور پٹواری کی شان اور طاقت دیکھی نہیں۔ تمہیں کیا پتا وہ کن موضعوں اور علاقوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ تم کیا جانو ان کا رعب۔ تم بڑے افسر بن جاو یا بڑے کاروباری’ کسی دن اونٹ پہاڑ تلے آئے گا تو اسے اپنے قد کا اندازہ ہوگا۔

میں ایک پٹوار خانے میں کھڑا تھا اور 42سال پہلے عابد کی بات میرے کانوں میں گونجتی تھی۔ میں کاروباری طبقے کا ایک نیک نام اور کامیاب شخص تھا اور معاشرے میں معزز سمجھا جاتا تھا۔ ایک جائیداد کے کاغذات کے سلسلے میں یہاں آنا پڑ گیا۔ کتنے زمانوں سے سن رہا تھا کہ محکمہ مال کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے۔ اب لوگوں کو جائیداد کے کاغذات کیلئے دفتروں کے چکر نہیں کاٹنے پڑیں گے۔ آن لائن ہی دستیاب ہوں گے۔ یہ خبریں پڑھ کر یہی سمجھتا تھا کہ سرکار نے اعلان کیا ہے تو ایسا واقعی ہو گیا ہوگا۔ اب جب خود پر پڑی تو علم ہوا کہ نہیں جناب! طریق کار وہی ہے۔ پٹواری کے پاس ہی جانا ہوگا اور کاغذ پر تحصیلدار کے دستخط بھی ضروری ہیں۔ پٹوا رخانے کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد دیکھ کر دل بیٹھنے لگا۔ ایک مستطیل سے کمرے میں بنچوں کے پیچھے کچھ لوگ رجسٹر سامنے دھرے بیٹھے تھے۔ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ان میں پٹواری دراصل کون ہے اور اس کے منشی کون۔ ان کے پیچھے ریکس میں رجسٹروں کی صفیں لگی ہوئی تھیں۔ ہر ریک میں آٹھ دس خانے اور ہر خانے میں پچاس ساٹھ رجسٹر۔ کمرے میں لگ بھگ ڈیڑھ دو ہزار رجسٹر تھے۔ کمرے میں لوگوں کی بھیڑ تھی۔ کوئی عکسِ شجرہ نکلوانے آیا ہوا تھا’ کوئی فرد برائے بیع نکلوانے کیلئے موجود تھا۔ کسی کو جائیداد کے کھیوٹ نمبر’ کھتونی نمبر درکار تھے’ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا گھر کس موضع میں آتا ہے اور اسے دراصل کس پٹواری کے پاس جانا چاہیے۔ یہ سب کسی نہ کسی مجبوری سے یہاں آئے تھے’ اپنی شدید اور اہم مصروفیات چھوڑ کر۔ اور یہ بات پٹواری اور اس کے منشیوں کو معلوم تھی۔ مجھے معلوم تھا تو یہ کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے تحت کوئی پٹواری اپنا منشی اور غیر متعلقہ شخص کام پر نہیں بٹھا سکتا’ تو یہ لوگ کون ہیں اور کیوں پٹوار خانے کے ریکارڈ پر بیٹھے ہوئے ہیں؟ کسی کی مجال نہیں تھی کہ یہ سوال پوچھ سکے۔ یہاں آواز بلند کرنے کا مطلب تھا اپنا کام خراب کرنا بلکہ کام تمام کرنا۔ میں نے کمر ے میں نظر دوڑائی کہ حصولِ کاغذات کی سرکاری فیس کہیں آویزاں ہے؟ کہیں نظر نہ آئی۔ یہاں آتے وقت کسی نے بتایا تھا کہ بھائی! سرکاری فیس بھول جاو پٹواری کی اپنی فیس ہو گی اور وہ اسی وقت کام سے پہلے دینا پڑے گی۔ پھر بھی تجسس سا تھا کہ سرکاری فیس اور پٹواری فیس میں فرق کتنا ہوتا ہے۔

میں نے بھیڑ میں راستہ بنایا اور ایک منشی سے لجاجت سے پوچھا کہ فرد برائے بیع کے لیے آیا ہوں’ کتنی دیر لگے لگی اور کتنے پیسے؟ خشمگیں لہجے میں بولا: اتنے لوگ کھڑے ہیں انہی کاموں کے لیے’ آپ کو زیادہ جلدی ہے؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے میں انتظار کر لیتا ہوں’ آپ پیسے بتا دیجیے۔ اس نے آنکھوں آنکھوں میں کمرے کے ایک فرد کو اشارہ کیا’ وہ میرے پاس آیا اور کام کی تفصیل پوچھی۔ تفصیل بتائی تو دھیمی آواز میں بولا: 25ہزار روپے ہوں گے’ پیسے دے جائیں’ کل آ جائیے گا۔ رسید کوئی نہیں ملے گی۔ صورتحال دیکھتے ہوئے یہی غنیمت لگ رہا تھا کہ کوئی میرے کام کی ہامی تو بھر رہا ہے۔ میں نے لجاجت سے کہا: بھائی یہ تو زیادہ ہیں’ کچھ کم کر دیں۔ بولا: ہم تو 40ہزار لیتے ہیں اور ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں۔ آپ کیلئے رعایت ہی کی ہے۔ میرے ساتھ کھڑا ہوا ایک اور سائل یہ باتیں سن رہا تھا۔ مجھ سے سرگوشی میں بولا: فرد برائے بیع کی سرکاری فیس چند سو روپے ہے’ ایک ہزار سے کم۔ میں کچی فرد کیلئے آیا ہوں’ اس کے مجھ سے چھ ہزار روپے مانگ رہے ہیں۔ سرکاری فیس شاید پچاس روپے ہے۔ میں خوفزدہ ہوگیا کہ کہیں پٹواری’ اس کے منشی یا ٹاوٹ ہماری یہ باتیں نہ سن لیں۔ میر اکام تمام ہی نہ ہو جائے۔ معلوم ہوا پٹواری صاحب کمروں کے باہر برآمدے میں کسی میٹنگ میں مصروف ہیں۔ میں برآمد ے میں پہنچا۔ پٹواری صاحب دور سے الگ پہچانے جاتے تھے۔ ان کے سامنے وہ صاحب کھڑے تھے جو میرے سامنے اپنی قیمتی فور وہیلر سے اْترے تھے۔ ان کے پٹواری سے راز ونیاز جاری تھے۔ وہ پٹواری صاحب کے سامنے خوشامدانہ آواز اور چاپلوسانہ الفاظ کے ساتھ دست بستہ کھڑے تھے۔ برآمدے میں اور بھی کئی لوگ تھے جو اپنے اپنے راز ونیاز کیلئے پٹواری کی ایک نگاہ کے منتظر تھے۔ میں بھی انہی لوگوں میں کھڑا ہوگیا۔

پٹوار خانے کے برآمدے میں پٹواری کی ایک نگاہِ کرم کے انتظار میں کھڑے میرے کانوں میں 42سال پہلے عابد کے جملے گونجتے تھے۔ تم بڑے افسر بن جاو یا بڑے کاروباری، کسی دن اونٹ پہاڑ تلے آئے گا تو اپنے قد کا اندازہ ہوگا۔