پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات

پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میںہمیشہ بلند سطح پر ہی رہی ہیں۔ کبھی ایسا سال نہیں آیا جب برآمدات زیادہ ہوں اور درآمدات کم ہوں۔ البتہ صرف ایک بار 1949-50ء میں کوریا جنگ کے خطرات کے باعث برآمدات زیادہ اور درآمدات کم رہیں۔ ان دنوں بہت سے ملکوں نے برآمدات میں اضافے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی تھی۔ ہندوستان اور برطانیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور پاکستان سے انڈیا یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ پاکستانی کرنسی جو اس وقت تین روپے 90پیسے فی ڈالر تھی، اس کو کم کردیا جائے لیکن اس وقت کے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان جو بحیثیت وزیر خزانہ متحدہ ہندوستان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے تھے، نے روپے کی قدر گھٹانے سے انکار کردیا تھا۔

آج کل ایک بار پھر حالات غیر معمولی ہیں۔ غزہ جارحیت جس میں اسرائیل سربیت و سفاکیت کا بھرپور مظاہرہ کر رہا ہے اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔کچھ پتا نہیں کہ اس جنگ کے نتائج خطے کے لیے کتنے تباہ کن ہوں گے۔اگر اسرائیل آگے بڑھ کر ایران پر حملہ کردیتا ہے تو اس سے عالمی سطح پر معاشی بھونچال آسکتا ہے۔ اسرائیل کی توسیع پسندی کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہمارے پڑوس میں بھی اسرائیل انڈیا گٹھ جوڑ بھی موجود ہے اور مودی سرکار اسرائیل نوازی میں حد سے تجاوز کر گئی ہے اور تکنیکی ساز وسامان سے لیس اسرائیلی اہلکار بھی ان دنوں سری نگر پہنچ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ بھارتی حکومت کے پاکستان پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کے جواب میں پاکستان نے بھی کمر کس لی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے جواب میں پاکستان نے تمام بھارتی طیاروں کے لیے پاکستانی فضائی حدود کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔

بھارت جنگ کا ماحول بنانا چاہ رہا ہے، ایسے حالات میں پاکستان کو نئی پٹرولیم پالیسی کو فوری طور پر نافذ العمل کرنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ بھارت کے ساتھ کسی بھی کشیدگی یا جنگ کی صورت میں ملک کی سلامتی کے ساتھ توانائی کی سلامتی کو بھی مدنظر رکھنا ہوگی، کیونکہ تیل ہماری معیشت کے علاوہ دفاعی ودیگر ضروریات کا اہم جز ہے لہٰذا اس کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر ایک جامع اور مؤثر پالیسی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یمن پر امریکی حملوں کی صورت میں تیل کی فراہمی میں رکاوٹ کا بھی خدشہ ہے۔ جنگ کے دنوں میں تیل کی قلت معاشی بحران کو زیادہ خطرناک بنا سکتا ہے۔ موجودہ تیل کے ذخائر کو وسعت دینا ہوگا۔ جنگ کی صورت میں تیل کی ضروریات کا صحیح تخمینہ لگانا، مدت کا تخمینہ جو بعض ماہرین کا خیال ہے کہ 3سے 6ماہ کا ہونا چاہیے، ملک کے ہر صوبے میں محفوظ اور زیادہ گنجائش کے ذخیرہ گاہوں کا ہونا یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی منڈی یا تیل برآمد کرنے والے ملکوں سے ضرورت سے زائد تیل کی خریداری کے معاہدے کرنا ہوں گے۔

جولائی تا مارچ 2025ء کے دوران پاکستان کی کل درآمدات 42ارب 69کروڑ 79لاکھ ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ مالیت 40ارب 5کروڑ 38لاکھ 80ہزار ڈالرز کے باعث 6.60فیصد کا اضافہ ہوا اور اس درآمدات میں پیٹرولیم گروپ کی درآمدات 9ماہ میں 11ارب 94کروڑ ڈالر رہیں، یعنی کل درآمدات میں 12ارب ڈالر تو پیٹرولیم مصنوعات رہیں۔ مئی میں اب ماہانہ بنیادوں پر منگوائی جانے والی درآمدات میں تقریباً دگنا اضافہ کرتے ہیں تو سالانہ 16ارب ڈالر سے بڑھ کر 18یا 19ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے کیونکہ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جس میں سب سے اہم تیل کے ذخائر میں اضافے کے ساتھ ذخائر کے انتظام کے لیے تربیت یافتہ عملہ یا انجینئرز کی ضرورت ہوتی ہے۔

1970ء کی دہائی سے پاکستان میں پیٹرولیم انجینئرنگ کی تعلیم کا مضمون، ایف ایس سی پاس کرنے والے بچوں کے لیے انتہائی کشش کا باعث بن گیا کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے وہ ممالک جو تیل برآمد کر رہے تھے، وہاں انجینئرز کی بڑی ڈیمانڈ تھی لہٰذا حکومت ایسے فریش انجینئرز کو ملک میں کم ازکم 6ماہ تک خدمات کے لیے ترغیب دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ وزارتوں اور کئی اداروں کے درمیان مؤثر رابطہ ہونا ضروری ہے۔ ایک اعلیٰ سطحی غیرسیاسی کمیٹی جس میں تمام افراد ٹیکنیکل اور پیٹرولیم سے متعلقہ پروفیشنلز ہوں، مالی وسائل بھی دستیاب ہوں، محفوظ ذخیرہ گاہوں کا انتخاب تکنیکی مہارت کے حصول کے لیے عارضی طور پر بین الاقوامی ماہرین کے تجربوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ جنگ کے دنوں میںعالمی پابندیاں لگ سکتی ہیں لہٰذا متبادل ذرائع اور راستوں کے انتخاب کے لیے ایران کو چن سکتے ہیں۔

بہرحال جنگ کی صلاحیت میں اضافے اور تسلسل کی خاطر تیل کی فوری، وافر اور تیزتر ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سب کیلئے فوری طور پرماہرین کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ سا سلسلے میں فوری عملدرآمد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی وناصر ہو۔