گزشتہ سے پیوستہ:
جانز ہاپکنز یونیورسٹی امریکا واضح طور پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کو منع کرتی ہے۔ اس کے مطابق جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال تمام اسیسمنٹ کے اندر سختی سے ممنوع ہے تاکہ طلبہ کی انفرادی کارکردگی کا منصفانہ جائزہ یقینی بنایا جا سکے۔ یونیورسٹی آف شکاگو امریکا مصنوعی ذہانت سے تیار کیے گئے مواد کو گمراہ کن اور غلط کہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد گمراہ کن یا غلط ہو سکتا ہے۔ جنریٹیو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ایسے مواد کے حوالے بنا سکتی ہے جو موجود نہیں ہے۔
جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے جوابات میں دوسرے مصنفین کے مواد اور میٹریل شامل ہو سکتے ہیں جو کاپی رائٹ ہو ں۔ یہ ٹول استعمال کرنے والے صارف کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ کسی بھی مواد کی درستی اور ملکیت کا جائزہ لے۔ امپیریل کالج لندن، برطانیہ بھی یہ کہتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے منع کرتا ہے کہ جہاں جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ٹولز استعمال کرنے کی واضح ہدایات موجود نہیں ہیں، وہاں یہ قابلِ قبول نہیں ہوگا کہ انہیں آپ اپنے اسیسمنٹ لکھوانے کے لیے استعمال کریں۔ جنریٹیو منصوعی ذہانت کے ٹولز کو استعمال کرکے اسیسمنٹ کے مواد کو تیار کرنے کو ایک قسم کی کنٹریکٹ نقل سمجھا جائے گا جب تک واضح طور پر اسے اسیسمنٹ کے کچھ حصے میں استعمال کرنے کی منظوری نہ دی گئی ہے، جسے امپیریل کے ادبی سرقہ، تعلیمی سالمیت اور امتحانی جرائم کے ویب صفحہ کے ساتھ ساتھ لائبریری کے ادبی سرقہ سے آگاہی کورس کے اندر بھی بتایا گیا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن، برطانیہ بھی مصنوعی ذہانت کو امتحانات اور اسیسمنٹ میں استعمال سے منع کرتی ہے۔ یہ قابلِ قبول نہیں ہے کہ جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے آپ اپنا پورا اسیسمنٹ کا مواد تیار کریں اور اسے آپ کے اپنے کام کے طور پر پیش کریں۔ جنریٹیو آے آئی سے بنائے گئے الفاظ اور خیالات دوسرے انسانی مصنفین کے خیالات کا حوالہ دیے بغیر انہیں استعمال کررہے ہیں، جسے بہت سارے لوگ سرقہ کی ایک قسم سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف آیڈنبرا، برطانیہ بھی واضح طور پر کہتا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اسیسمنٹ کے لیے جمع کیا گیا تمام مواد آپ کا اپنا اصلی کام ہونا چاہیے۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کردہ مواد کو اپنے کام کے طور پر پیش کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اسے اکیڈمک مس کنڈکٹ یعنی تعلیمی بدانتظامی سمجھا جائے گا۔ جرمنی کی یونیورسٹی آف بون بھی سختی سے مصنوعی ذہانت کے استعمال کو منع کرتی ہے۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ ٹرم پیپرز اور تھیسس میں مصنوعی ذہانت (مثلاً چیٹ جی پی ٹی) کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے ایک غیر مجاز مدد سمجھا جاتا ہے تاوقتیکہ ممتحن کی طرف سے واضح طور پر اس کی اجازت نہ دی گئی ہو اور یہ بات مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ترجمہ کرنے والے سافٹ وئیر پر بھی لاگو ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بہترین یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت کے متعلق واضح پالیسیاں رائج کرچکی ہیں اور ان یونیورسٹیوں میں مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز سے مواد بنوا کر اسے اپنے آئیڈیا، تحقیق یا تجزیہ بنا کر پیش کرنے پر مکمل پابندی ہے اور کسی طالبِ علم کے اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سخت قسم کے جرمانے عائد ہیں جن میں مضمون میں فیل، اخراج یا معطلی تک شامل ہے مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض حضرات جن پر مغرب کی ٹیکنالوجی کو ہر صورت اختیار کرنے کا بھوت سوار ہے وہ مصنوعی ذہانت کو طلبہ کرام کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہمیں طلبہ کرام کے اندر صلاحیت و استعداد پیدا کرنی ہے تو مصنوعی ذہانت سے مکمل احتراز کرنا ہوگا۔ مصنوعی ذہانت سے احتراز کرنے سے طلبہ کرام کے اندر عملی طور پر کتابوں سے مناسبت پیدا ہوگی، تحقیق کی جستجو ہوگی ورنہ کاہلی، کام چور، سستی اور ٹھوس استعداد پیدا نہ ہوسکے گی۔ مصنوعی ذہانت کو طلبہ کرام میں ترویج دینے والے حضرات سے ہماری گزارش ہے کہ اگر آپ کو ہماری بات سمجھ میں نہیں آتی تو اللہ کے واسطے انہی ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں کی پالیسیوں پر ہی عمل کرلیجیے اور مصنوعی ذہانت کو طلبہ کرام کے تعلیمی و تدریسی استعمال سے مکمل احتراز کیجیے۔
مندرجہ بالا ٹھوس سائنسی حوالہ جات کے اقتباسات سے یہ امور واضح ہوتے ہیں کہ بلااجازت امتحانات کے اندر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کے استعمال پر دنیا بھر کی بیشتر یونیورسٹیوں میں سختی سے پابندی عائد ہے، تاہم طلبہ کو روزمرہ کی زندگی میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے روکنا ایک مشکل عمل ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر انٹرنیٹ پر بآسانی مفت دستیاب ہیں۔ مسئلہ جب پیش آتا ہے جب طلبہ مصنوعی ذہانت کو اس عنوان سے استعمال کرتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعے مختلف مہارتوں اور فنون کو سیکھیں گے جبکہ اس کے بالکل برعکس وہ ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کا استعمال کرتے ہوئے ان سے امتحانی مواد تیار کرتے ہیں، مثلاً کسی مضمون میں مدرس نے طلبہ کو کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کا کہا تاکہ ان طلبہ کرام میں تحقیق کرنے کی استعداد پیدا ہو تو بعض طلبہ کنٹریکٹ چیٹنگ کے ذریعے وہ مقالہ کسی سے پیسے دے کر لکھوا لیتے تھے مگر اب جبکہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر تک طلبہ کی بآسانی مفت رسائی حاصل ہے لہٰذا طلبہ کی ایک بڑی تعداد کا اس طرف رجحان پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی و تدریسی کام ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے کروائیں اور نتیجتاً بعض طلبہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے وہ مقالہ لکھوا لیتے ہیں۔ طلبہ کے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو بطور علمی سرقہ کے اس وسیع استعمال کے پیشِ نظر یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور عالمی تدریسی اداروں نے سائنسی تدریسی تحقیقات کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ کے اس بڑھتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ان کی تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں پر منفی اثر پڑتا ہے جس کی عمومی طور پر دنیا بھر کی یونیورسٹیاں حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ طلبہ کے لیے لازم ہے کہ جو بھی کام وہ جمع کروائیں وہ ان کا اپنا اصلی کام ہونا چاہیے۔ یعنی اسیسمنٹ کے لیے جمع کیا گیا تمام مواد طالب علم کا اپنا اصلی کام ہونا چاہیے۔
اگر کسی طالبِ علم نے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ بوٹ کو استعمال کر کے جائزے کا مواد تیار کیا اور اس مواد کو اپنا آئیڈیا، تحقیق یا تجزیہ بنا کر پیش کرتا ہے، تو وہ اپنا کام پیش نہیں کر رہا۔ اگر کوئی طالبِ علم مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کو اپنا کام بنا کر پیش کرتا ہے، اسے جان بوجھ کر دھوکا دہی اور اکیڈمک مس کنڈکٹ کہا جاتا ہے۔ امتحانات میں جنریٹو مصنوعی ذہانت کے استعمال یا اس کے ساتھ مشورہ لینا ایسا ہی سمجھا جائے گا کہ آپ نے کسی دوسرے شخص سے مدد لی ہے۔ بالخصوص، کسی اسائمنٹ یا امتحان کا بڑا حصہ جنریٹیو مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کرنا (مثلاً امتحان یا اسائنمنٹ کے سوالات درج کرکے)۔ جنریٹیو آے آئی سے بنائے گئے الفاظ اور خیالات دوسرے انسانی مصنفین کے خیالات کا حوالہ دیے بغیر انہیں استعمال کر رہے ہیں، جسے بہت سارے لوگ سرقہ کی ایک قسم سمجھتے ہیں لہٰذا ان سے تیار کردہ مواد کو استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
بعض مرتبہ کچھ طلبہ مطلوبہ صلاحیتیں اور استعداد بنائے بغیر ہی اچھے امتحانی نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ غلط ذرائع استعمال کرتے ہیں، مثلاً نقل کرنا۔ نقل کی مختلف اقسام ہیں اور ان اقسام کی بنیاد پر یونیورسٹیوں میں مختلف سزائیں ہوتی ہیں اور جرمانے لگتے ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں سرقہ، جعل سازی اور اکیڈمک مس کنڈکٹ سے متعلق واضح پالیسیاں موجود ہیں اور بیشتر عالمی یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کو جعل سازی اور ایکڈمک مس کنڈکٹ ہی گردانتی ہیں۔