شاپنگ بیگ ناگزیر کیوں ہیں؟

شاپنگ بیگز آج کل ناگزیر ضرورت کا روپ دھار چکے ہیں۔ جس طرح موبائل فون نے بہت سی اشیاء اور گیجٹ کو نگل لیا ہے، اسی طرح شاپنگ بیگ نے بھی کئی چیزوں اور روایات کو ڈکار مار کر ہضم کر لیا ہے۔ موبائل فون نے گھڑی، کیمرا، ویڈیو کیمرا، خط، عید کارڈز، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، ٹیلی ویژن اور سینما سمیت بہت کچھ کو ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔

ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن سے لے کر جوانی تک کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ شاپنگ بیگ نام کی کوئی چیز ایجاد ہوگی اور سہولت دینے کے ساتھ ساتھ اس دور کے حساب سے بہت ساری ضروری چیزوں کو ختم کر دے گی۔ تب پرچون کریانے والے سودا سلف کاغذ کی پڑیا بنا کر اس میں دیتے تھے۔ اگر سودے کی مقدار کچھ زیادہ ہوتی تو خاکی رنگ کے کاغذ سے بنے ہوئے لفافے میں ڈال دیتے تھے۔ اگر خریدے گئے سودے کی مقدار مزید بڑھ جاتی تو کریانے والے کے پاس کپڑا لے کر جایا جاتا اور سودا سلف کی گٹھڑی باندھ لی جاتی تھی۔ گوشت بھی اخباری کاغذ میں لپیٹ کر دیا جاتا تھا۔ سبزی خریدنے کے بعد ہم بچے اسے جھولی یعنی قمیض کے دامن میں ڈلوا لیا کرتے تھے۔ گھر کے بڑے سبزی خریدتے وقت پونا (دسترخوان) ساتھ لے جاتے تھے۔ اس میں سبزی ڈلوا کر چھوٹی سی گٹھڑی باندھتے اور اٹھا کر گھر لے آتے۔

پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کی ایجاد نے گویا ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اب آپ جو کچھ مرضی خریدیں، خریدی گئی چیز ٹھوس ہو یا مائع، اسے شاپنگ بیگ میں ڈلوا کر لے آتے ہیں۔ پہلے تو بازار سے دودھ لانے کے لیے برتن لے کر جانا پڑتا تھا۔ کھلا گھی برتن میں لایا جاتا، سرسوں کا تیل لانے کے لیے خالی شیشی یا بوتل لے کر جانا پڑتی۔ کپڑے کا سوٹ خریدتے تو دکاندار سوٹ تہہ کرنے کے بعد اخبار بچھا کر اس کے اوپر رکھتا اور گولائی میں اخبار کے اندر لپیٹ کر رول بنا دیتا، دونوں طرف اخبار کے بڑھے کناروں کو کپڑے کے اندر موڑ کر وہ رول گاہک کو تھما دیتا۔ کپڑے زیادہ ہوتے تو دکاندار گاہک کو اپنی طرف سے دسترخوان میں باندھ کر وہ کپڑے دے دیتا۔ گاہک بھی مفت دسترخوان پا کر خوش ہو جاتا۔ ہم بچوں کے کھانے کے لیے اس دور میں ٹانگر، نمکین اور میٹھی پُھلیاں، مونگ پھلی، ختائیاں، ریوڑیاں، مکھانے، مرونڈا اور چینی سے تیار شدہ چھوٹے چھوٹے کھلونے وغیرہ ہوتے تھے جنہیں ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا یا پھر مقدار زیادہ ہونے کی صورت میں جھولی میں ڈال دیا جاتا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ خرید کی ہوئی چیزیں ڈالنے کے لیے شاپنگ بیگ امرت دھارا بن گیا ہے۔ جو کچھ بھی خریدیں اس میں ڈال لیں اور حفاظت و آسانی سے گھر لے آئیں۔

ہمارے ایک بزرگ دلاور حسین صاحب شاپنگ بیگ کے استعمال کے سخت خلاف تھے۔ ان کا ساتھی گھر کا سلا ہوا کپڑے کا تھیلا ہوتا تھا جس میں سامان ڈال کر وہ گھر لاتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ اب تو شاپر (شاپنگ بیگز) آ گئے ہیں، آپ ان میں سامان لانے کی بجائے ابھی تک اپنے تھیلے کے ساتھ ہی چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر وہ مسکرانے لگے۔ ہم نے بہت زیادہ خوشی کے موقع پر بھی انہیں صرف مسکراتے ہی دیکھا تھا، قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے شاید ان کے بیٹوں نے بھی کبھی نہ دیکھا ہو، بڑے متین اور سنجیدہ شخص تھے، فرمانے لگے پُتر، جو چیز لوگوں کی نظروں میں آ جائے اسے نظر لگ جاتی ہے۔ اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ اس میں لذت نہیں رہتی۔ یہ ان کا فلسفہ تھا جو اُس وقت تو مجھے سمجھ میں نہیں آیا لیکن آج جب غور کرتا ہوں تو ان کی بات سچ لگتی ہے۔ واقعی چیزوں میں سے لذت اور برکت اٹھ چکی ہے۔ ہر چیز کو ہی نظر لگ گئی ہے۔ شاپنگ بیگ اپنے اندر کی چیز کو چھپاتا نہیں بلکہ واضح کرتا ہے جیسے کسی حسینہ نے چست لباس پہن رکھا ہو۔

یہ شاپنگ بیگ جو زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں ان کے بارے میں کئی سال پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ یہ مضرِ صحت ہیں۔ یہ کینسر جیسے موذی مرض کے علاوہ بھی کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ خصوصاً سیاہ رنگ کے بیگ تو انتہائی خطرناک ہوتے ہیں کہ یہ دراصل استعمال شدہ، ناکارہ بلکہ گندگی کے ڈھیروں پر پھینکے جانے والے شاپنگ بیگز، پلاسٹک کی بوتلوں اور پلاسٹک کے ٹکڑوں کو ری سائیکل کر کے بنائے جاتے ہیں۔ ان سیاہ بیگز کو عام طور پر فروٹ، سبزی اور دیگر اشیائے خورونوش ڈال کر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ صحت کا دعویٰ ہے کہ سیاہ رنگ کے یہ شاپنگ بیگز کینسر پیدا کرنے اور پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ملک بھر میں شاپنگ بیگز کی تیاری پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد اس صنعت سے وابستہ حضرات نے قابلِ تحلیل مواد سے شاپنگ بیگز تیار کرنا شروع کر دیے تھے تاکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے مگر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے اب پھر پورے ملک میں ناقابلِ تحلیل میٹیریل سے بنے شاپنگ بیگز کی بھرمار ہے۔ یقینا یہ فکر کی بات ہے۔ حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔