طلبہ کی تعلیمی قابلیت اور استعداد جانچنے کے لیے جائزہ یا امتحان لینے کا عمل سرانجام دیا جاتا ہے، جسے عام طور پر اسیسمنٹ Assessment بھی کہا جاتا ہے اور اس کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ تعلیمی اداروں کا مقصد طلبہ میں ان صلاحیتوں اور استعداد کا بنانا ہوتا ہے جو کہ وہ اپنے نصاب میں متعین کرتے ہیں۔ مستقبل میں نوکریوں کے حصول کے وقت یا پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخلوں کے وقت یہ طلبہ ان جائزوں کے نتائج کے ذریعے اپنی تعلیمی قابلیت و استعداد کو ظاہر کرتے ہیں اور پھر عملی زندگی میں حاصل کی گئی مہارتوں اور علوم کو مختلف شعبوں میں استعمال کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ کرام کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے تجزیاتی اسکلز وغیرہ کو بڑھائیں۔ بعض مرتبہ کچھ طلبہ مطلوبہ صلاحیتوں اور استعداد بنائے بغیر ہی اچھے امتحانی نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ غلط ذرائع استعمال کرتے ہیں مثلا نقل کرنا۔ نقل کی مختلف اقسام ہیں اور ان اقسام کی بنیاد پر یونیورسٹیوں میں مختلف سزائیں ہوتی ہیں اور جرمانے لگتے ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں سرقہ، جعل سازی اور اکیڈمک مس کنڈکٹ سے متعلق واضح پالیسیاں موجود ہیں۔ پہلے ہم اکیڈمک مس کنڈکٹک کی تعریف سمجھتے ہیں، پھر دنیا کی کچھ بہترین یونیورسٹیوں کی مصنوعی ذہانت سے متعلق پالیسوں کا ذکر کریں گے۔
کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ اکیڈمک مس کنڈکٹ یعنی تعلیمی بد انتظامی کی تعریف یوں کرتی ہے:
”اکیڈمک مس کنڈکٹ یعنی تعلیمی بد انتظامی، عمومی طور پر، کوئی بھی ایسا عمل ہے جس سے غیر منصفانہ تعلیمی فائدہ حاصل کیا جائے، یا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، یا دوسروں کی مدد کی جائے کہ وہ غیر منصفانہ فائدہ حاصل کریں یا غیر منصفانہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں سرقہ، ملی بھگت، کانٹریکٹ چیٹنگ، ڈیٹا کے جعل سازی کے ساتھ ساتھ امتحان کے دوران غیر مجاز مواد کا رکھنا بھی شامل ہے۔”
اکیڈمک مس کنڈکٹ کی تعریف سمجھنے کے بعد اب ہم قارئین کے سامنے دنیا کی چند مشہور یونیورسٹیوں کی مصنوعی ذہانت سے متعلق پالیسوں کا ذکر کرتے ہیں۔
آسٹریلیا کے بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک یونیورسٹی، یونیورسٹی آف میلبورن ہے اور اس کا شمار دنیا کی بڑی اور عالمی معیار کی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ کیو ایس رینکنگ کے مطابق یہ آسٹریلیا میں پہلے نمبر پر اور عالمی سطح پر تیرہویں نمبر پر شمار ہوتی ہے، جبکہ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن برطانیہ کے مطابق عالمی رینکنگ میں اس کا شمار انتالیسویں نمبر پر ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف میلبورن، آسٹریلیا کی مصنوعی ذہانت کے متعلق واضح پالیسی ہے کہ جو بھی کام طلبہ جمع کروائیں وہ ان کا اپنا اصلی کام ہونا چاہیے۔ وہ جمع کروایا گیا کام جوکہ طالبِ علم کا اپنا نہ ہو اس پر مختلف اقسام کے جرمانے لگیں گے جن میں اس مضمون میں فیل کرنا، معطلی اور اخراج شامل ہے اور اس کا انحصار کیس کی شدت اور سابقہ جرم پر انحصار کرتا ہے۔ اگر کسی طالبِ علم نے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلا چیٹ بو ٹ یا کوئیل بوٹ کو استعمال کرکے جائزے کا مواد تیار کیا اور اس مواد کو اپنا آئیڈیا، تحقیق یا تجزیہ بنا کر پیش کرتا ہے، تو وہ اپنا کام پیش نہیں کر رہا۔ یہ جاننا چاہیے کہ کسی تھرڈ پارٹی، جس میں مصنوعی ذہانت شامل ہے، کے ذریعے تحریر کرنا (چاہے پیسے دے کر یا مفت) جو کہ طالبِ علم اپنا کام بنا کر پیش کرتا ہے، یہ جان بوجھ کر دھوکہ دہی اور اکیڈ مک مس کنڈکٹ کہا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ کے نام سے کون واقف نہیں۔ کیو ایس رینکنگ کے مطابق یونیورسٹی آف کیمبر ج عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر آتی ہے، جبکہ ٹائمز ہائیر رینکنگ کے مطابق پانچویں نمبر پر آتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج نے واضح ہدایت دی ہیں کہ طالب علم اگر کوئی ایسا مواد استعمال کرتا ہے جو کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کیا گیا ہو اور جس کے بارے میں یہ واضح طور پر اس نے یہ نہ لکھا کہ یہ مواد اس نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کیا ہے اور اس مواد کو بطور اپنے کام کے پیش کرے تو یہ اکیڈمک مس کنڈکٹ کے طور پر سمجھا جائے گا، تاوقتیکہ کہ یہ نہ کہا گیا ہو کہ طالبعلم مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے مواد تیار کر سکتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف برمنگھم دنیا کے سو بہترین جامعات میں سے ایک ہے۔ اس کا کوڈ آف پریکٹس یہ بتاتا ہے کہ آپ جنریٹیو آے آئی کی آوٹ پٹ کو اسیسمنٹ (جائزہ یا امتحان) میں استعمال نہیں کر سکتے، یعنی مصنوعی ذہانت نے جو مواد تیار کیا ہے، جب تک کہ اس کی واضح طور پر اجازت نہ دی گئی ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہوں گے اگر آپ ان ٹولز کے ذریعہ تیار کردہ کام کو اپنا بنا کر جمع کراتے ہیں، یا اسے اپنے کام میں شامل کرتے ہیں، بغیر واضح اجازت کے۔ دنیا کے بہترین جامعات میں سے ایک امریکا کی مشہور اسٹینفورڈ یونیورسٹی ہے، اس کی پالیسی درجِ ذیل ہے: ”مصنوعی ذہانت کے بارے میں کسی کورس انسٹرکٹر کی جانب سے واضح بیان کی عدم موجودگی میں جنریٹو مصنوعی ذہانت کے استعمال یا اس کے ساتھ مشورہ لینا ایسا ہی سمجھا جائے گا کہ آپ نے کسی دوسرے شخص سے مدد لی ہے۔ بالخصوص، کسی اسائمنٹ یا امتحان کا بڑا حصہ جنریٹیو مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کرنا (مثلاً امتحان یا اسائنمنٹ کے سوالات درج کرکے)۔ طلبہ کو جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے استعمال کا اظہار کرنا چاہیے اور جب کبھی بھی شک کا شکار ہوں تو لی گئی مدد کا اظہار کر دینا چاہیے۔”
(جاری ہے)