کتاب دوستی کو فروغ دینا ضروری ہے

ہر سال کی طرح اس بار 23 اپریل کو دنیا کے 100 سے زیادہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کتاب کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منایا جاتا ہے جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عوام میں کتب بینی کا فروغ، کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ کتاب کے عالمی دن کا آغاز اسپین میں 1616ء میں ہوا۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں یہ دن 23 اپریل ہی کو منایا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں اس دن کی پذیرائی یورپ اور امریکا کی طرح نہیں ہوتی۔ سوائے چند ادبی حلقوں مثلاً قائدِ اعظم لائبریری، گورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری، پاک ٹی ہاؤس، الحمراء لاہور، پیلاک اور ایوانِ اقبال اور اس طرح کی مزید دو چار تنظیموں کے علاوہ ہمیں اس دن کا پتہ اخبارات میں ایک یا دو کالمی خبر اور ٹی وی چینلز پر چند سیکنڈ کی چلائی گئی خبر کی صورت میں ملتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں یہ دن خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر اس دن کی پذیرائی بالکل بھی نہیں کی جاتی۔

عالمی یومِ کتاب منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی اور علم کو عام کرنا ہے۔ کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینا اس کا بنیادی مقصد ہے اس لیے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ اس دن کو حکومتی سطح پر منایا جائے۔ نئی نسل جو ڈیجیٹل دور کی پیداوار ہے، اسے کتاب کی اہمیت سے روشناس کرانا بہت ضروری ہے۔ بحیثیت قوم بھی یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو کتب بینی کا عادی بنائیں تاکہ یہ روایت زندہ رہ سکے۔ اس کے لیے ہر سال منعقد ہونے والے سالانہ کتاب میلوں کا انعقاد سہ ماہی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ اس مرتبہ لاہور میں منعقد کیے جانے والے کتاب میلے کے بارے میں پتا چلا ہے ک کتب کے اسٹال لگانے والوں سے کرائے کی مد میں بہت زیادہ رقم وصول کی گئی ہے۔ یہ اقدام کتب بینی کی شدید حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔اس کتاب میلے میں ناشران کی جانب سے کتابیں ڈسکاؤنٹ پر فروخت کی جاتی ہیں۔ مطالعہ کے شوقین حضرات سارا سال ایکسپو کتاب میلے کا انتظار کرتے ہیں جہاں وہ اپنی پسندیدہ اور مطلوبہ کتب سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ بعض مقبول اور مشہور مصنفین بھی اس میلے میں موجود ہوتے ہیں جو اپنی کتب کی پروموشن اور خریداروں کی حوصلہ افزائی کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ لوگ کتاب خریدتے ہیں، اس کے مصنف سے کتاب پر آٹو گراف لیتے ہیں اور یادگار کے طور پر مصنف کے ساتھ سیلفی بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے علاوہ فخر کے ساتھ دوستوں کو شیئر کرتے ہیں۔ کتاب میلے کتب بینی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سستی کتب فروخت کرنے والے ناشران سے بھاری کرائے وصول کرنے کی بجائے انہیں مفت اسٹال لگانے کی پیشکش کرنے کے علاوہ ضروری سہولیات بھی مفت فراہم کرے اور اس مد میں مکمل تعاون کرے۔

کتب بینی کے فروغ کے لیے تجویز ہے کہ ہر سال 23 اپریل کو تمام اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں سرکاری طور پر یہ دن منانے کا اہتمام کیا جائے جس میں کتب بینی پر سیمینارز، مذاکرے اور تقاریر کی جائیں۔ بڑے شہروں میں مقامی دکان داروں کو کتابوں کے سٹال لگانے کی دعوت اور ترغیب دی جائے۔ ہر عمر اور تعلیمی سطح کے لوگوں کیلئے ان کی دلچسپی کے مطابق پروگرام بنائے جائیں۔ہمارے ہاں کتب بینی کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ لوگوں کی قوتِ خرید کا کم ہونا اور کتابوں کی ہوش ربا قیمتیں بھی ہیں۔ مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ بہت سال پہلے مال روڈ لاہور کی ایک مشہور اور بڑی دکان پر ایک بڑے شاعر کی کلیات دیکھی۔ اس پر قیمت دو ہزار روپے درج تھی۔ اس وقت میری قوتِ خرید سے بہرحال قیمت زیادہ تھی۔ بعد میں اسی روز لوہاری گیٹ سے باہر احسن صاحب کی دکان پر میرا جانا ہوا۔ میں نے انہیں انڈیا سے ایک کتاب منگوانے کی درخواست کی ہوئی تھی۔ وہاں پر انڈیا سے شائع ہونے والی وہی کلیات اسی گیٹ اپ میں مجھے دکھائی دی جسے میں مہنگا ہونے کی وجہ سے چھوڑ آیا تھا۔ میں نے دیکھا تو اس پر 700 روپے قیمت درج تھی۔ میں نے وہ کتاب وہاں سے خرید لی۔ اب بھی یہی صورتِ حال ہے۔ انڈیا میں شائع ہونے والی کتابیں پاکستان کی نسبت بہت سستی ہیں۔ وہاں اس کا مربوط نظام موجود ہے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ 80 فیصد مصنفین اور شعراء اپنی جیب سے کتاب شائع کروا کر لوگوں میں مفت بانٹ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خرید کر کتاب پڑھنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہ کس قدر افسوسناک اور دل دکھانے والی بات ہے۔ ہماری حکومتوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر شعراء اور ادباء کی کتب شائع کروانے کا بندوبست کرنا ہو گا۔

کتب بینی کے فروغ کے لیے ایک اور قابلِ عمل تجویز یہ ہے کہ ہر یونین کونسل، میونسپل کمیٹی، ٹاؤن کمیٹی اور میونسپل کارپوریشن کے تحت پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں کوالیفائڈ لائبریرین کا تقرر کیا جائے۔ ان لائبریریز میں ریڈنگ روم کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ کمیونٹی لائبریری سے بہتر طور سے مستفید ہو سکے۔

پنجاب کے کالجز میں لائبریرین کی ہزاروں اسامیاں خالی پڑی ہیں، انہیں پُر کرنا ضروری ہے۔ ہائی اور ایلیمنٹری اسکولز میں کوالیفائڈ لائبریرینز کا تقرر آج تک نہیں کیا گیا، حالانکہ ہر اسکول میں لائبریری موجود ہے۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت کسی ٹیچر کو لائبریرین کی اضافی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جو اسے بوجھ سمجھ کر لائبریری کو غیرفعال رکھتا ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی طرح کوالیفائڈ لائبریرینز کا تقرر کر کے لائبریریز کو فعال کر کے کتب بینی کے فروغ کی طرف اہم پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔ کتب بینی کے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے لائبریری کے استعمال کو فروغ دینا بہت ضروری ہے تاکہ کتب بینی کے شائقین تک مہنگی اور نایاب کتابوں کی رسائی آسان ہو سکے۔

یاد رکھیے! کتاب دوست قوم ہی ترقی کے زینے طے کر سکتی ہے۔ ہم سب کا انفرادی اور اجتماعی فرض ہے کہ کتب بینی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر کے مردہ ہوتی اس روایت کو زندہ کرنے میں اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کریں۔