اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ (بارش نازل ہونے سے پہلے) آسمان اور زمین (سبزہ اگانے سے) بند تھے تو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے۔ (الانبیاء:30)
اس آیت کے ترجمے میں بعض حضرات نے رَتق کے معنی یہ کیے ہیں کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے اور ’’فَتَق‘‘ کے معنی ’’پھاڑ دینے‘‘ کے کیے ہیں‘ وہ اس آیت سے بگ بینگ تھیوری کا جواز اخذ کرتے ہیں۔ بگ بینگ کے معنی ہیں: ایک بہت بڑا دھماکا‘ جیسا کہ بعض سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کائنات کی اصل ایک مَہین (Minute) سا مادّہ تھا‘ بہت بڑے دھماکے سے وہ پھٹا‘ اْس کے اجزا منتشر ہوئے اور اس سے مختلف سیارے اور ثوابت وجود میں آئے۔ قرآنِ کریم کی اس آیہ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حیات کا مدار پانی پر ہے‘ اس لیے سائنسدان اور ماہرینِ فلکیات جب دوسرے سیاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا وہاں پانی ہے یا نہیں‘ کیونکہ اگر پانی ہو گا تو حیات بھی ہو گی اور پانی نہیں ہو گا تو حیات متصور نہیں ہو سکتی۔ زمین کے اندر بھی پانی موجود ہے‘ گہرائی کی سطحیں مختلف ہوتی ہیں‘ برسرِ زمین جو پانی پایا جاتا ہے اْس کی حسبِ ذیل صورتیں ہیں:
چشمہ (Spring): جہاں قدرتی طور پر زمین سے پانی نکلتا ہے۔ کنواں (Well): جہاں زمین کو کھود کر گہرائی سے پانی نکالا جاتا ہے۔ پہاڑی وادیوں میں مختلف ندی نالوں کا پانی جمع ہو کر دریا کی شکل اختیار کرتا ہے اور دریا جاکر سمندر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سمندر جب نہایت وسیع ہوتا ہے تو عربی میں’’مْحِیط‘‘ (Ocean) کہلاتا ہے جبکہ انگریزی میں سمندر کو Seaکہتے ہیں۔ چھوٹے سمندر جو محیط کا حصہ ہوتے ہیں انہیں اردو اور عربی میں ’’بْحَیرَہ‘‘ کہا جاتا ہے جیسے بحیرہ عرب‘ بحیرہ قلزم‘ بحیرہ کیسپین وغیرہ۔ اردو میں محیط یا Oceanکیلئے کوئی الگ لفظ استعمال نہیں ہوتا اور قرآن میں بھی بَحر ہی آیا ہے۔ عربی میں دریا کو ’’نَھر‘‘ کہتے ہیں‘ اس کی جمع اَنھار ہے جیسے نَھر نیل، نَھر دجلہ، نَھر فرات وغیرہ۔ ہمارے ہاں عام اردو مترجمین قرآن کے لفظ ’’اَنھار‘‘ کا ترجمہ ’’نہریں‘‘ کرتے ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے ’’دریا‘‘ کیا ہے اور ہماری نظر میں صحیح ترجمہ دریا ہی ہے۔ آبپاشی کیلئے آبی ذخیروں (Dams) اور دریاوں سے جو مصنوعی نہر نکالی جاتی ہے اسے انگریزی میں Canalاور عربی میں جَدوَل (Creek) کہتے ہیں۔ ایک محیط Pacific Oceanہے جسے اردو میں بحرالکاہل کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسے بحرالکاہل کہنے کا سبب یہ ہے کہ یہ سمندر پرسکون ہے‘ اس کی موجوں میں زیادہ ارتعاش نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ مسلمان کی فطرت میں جمود نہ ہو بلکہ ہمیشہ حرکت پذیری ہو‘ بحرِ موّاج کی طرح ہر وقت متحرک ہو‘ چنانچہ انہوں نے کہا ہے:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے، خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیرِ یزداں، تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
بندہ تقدیرِ یزداں تب بنتا ہے جب اس کی سوچ‘ اس کا عمل اور اس کے مقاصد و اہداف اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق ہو جائیں۔ اسی حقیقت کو قرآنِ کریم میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’پس جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور ’’حْسنٰی‘‘ کی تصدیق کرتا رہا تو عنقریب ہم اس کیلئے اس کی منزل کو آسان کر دیں گے۔‘‘ (اللیل:5 تا 7) علامہ جاراللہ زمخشری نے ’’حْسنٰی‘‘ کے کئی معانی کیے ہیں: ’’نیک جزا‘ ملّت اور جنت‘‘ اور اپنے اپنے درجے میں یہ سب معانی درست ہیں۔ پس جس میں عطائے مال‘ تقویٰ اور تصدیقِ حْسنٰی کی صفات ہوں گی تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت کی منزل کو آسان فرما دے گا۔ اسی مفہوم کو ایک حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چیز (یا لکڑی) لی اور زمین کو کریدنے لگے‘ پھر آپ نے فرمایا: تم میں جو کوئی بھی ہے اْس کا ایک ٹھکانا جہنم میں اور ایک ٹھکانا جنت میں لکھ دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! تو کیا ہم اپنی تقدیر پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں‘ آپ نے فرمایا: (نہیں!) بلکہ تم عمل کیے جاو‘ ہر ایک کیلئے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے جس کیلئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ پس جو اہلِ سعادت میں سے ہے اس کیلئے حصولِ سعادت کے اعمال آسان کر دیے جائیں گے اور جو اہلِ شقاوت میں سے ہے اس کیلئے شقاوت والے اعمال آسان کر دیے جائیں گے‘ پھر آپ نے سورۃ اللیل کی آیات 5تا7کی تلاوت فرمائیں۔‘‘ (صحیح البخاری:4949)
مولانا الطاف حسین حالی نے کہا تھا:
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
یعنی دریا کو کسی سے ہمدردی نہیں ہوتی وہ اپنے بہاو کی رفتار سے رواں دواں رہتا ہے‘ اس کے راستے میں جو چیز آئے اگر وہ طاقتور ہے تو پانی کے بہاو کی سَمت بدل جائے گی اور اگر وہ کمزور ہے تو پانی کی رفتار سے بہتی چلی جائے گی۔ اس لیے اپنے مدِّمقابل کی مزاحمت کے اعتبار سے افراد اور قوموں کے شِعار دو ہیں: (1) ‘چلو تم اْدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘۔ اسی کی بابت کہا گیا ہے: گر زمانہ باتو نہ سازد‘ تو بازمانہ بساز۔ یعنی اگر زمانہ تیرے ساتھ نباہ کرنے کے لیے اور تیری افتادِ طبع کے مطابق چلنے کیلئے تیار نہیں ہے تو تم اپنے آپ کو اس کے ڈَھب پر ڈال دو۔ (2) اگر زمانہ باتو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز۔ یعنی اگر زمانہ تمہارے ڈَھب پہ آنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اْس سے ٹکرا جاو مگر اپنے اصولوں پر مفاہمت نہ کرو‘ باطل نظریات کے سامنے مت جھکو۔ الغرض پانی اللہ تعالیٰ کی بے بہا نعمت ہے‘ اس پر ہر ذی حیات کی حیات کا مدار ہے اور آج کل موسمی تغیّرات کی وجہ سے برفانی تودے (Glacier) پگھلنے سے ایک طرف سیلابوں کے خطرات ہیں جو خدانخواستہ بستیوں کو بہا کر لے جا سکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے‘ نیز کہیں غیرمعمولی طوفانی بارشوں اور کہیں خشک سالی کے خدشات ہیں۔ چند سال پہلے صوبہ سندھ میں بادل اچانک پھٹ پڑے‘ اسےCloud Brustکا نام دیا گیا اور صوبہ سندھ کا کافی رقبہ زیرِ آب آگیا۔ اس سال کہا جاتا ہے کہ بارشیں معمول سے بہت کم ہوئی ہیں‘ برفباری بھی کم ہوئی ہے‘ اس لیے برفانی تودے پگھلنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
ملک میں خشک سالی معمول سے زیادہ ہے اور پچھلے ہفتے اسلام آباد اور راولپنڈی میں جو غیرمعمولی ژالہ باری ہوئی ہے‘ وہ قدرت کی بہت بڑی تنبیہ ہے۔ میڈیا نے رپورٹ کیا کہ گیند کی سائز کے اولے برسے۔ اس سے گاڑیوں میں ڈینٹ پڑ گئے اور ان کی وِنڈ اسکرینیں ٹوٹ گئیں‘ مارکیٹ میں ان کی طلب بڑھنے سے رسد میں کمی واقع ہو گئی اور دکانداروں نے اس قدرتی آفت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کردیا۔ یہ انتہائی سنگدلی اور بے رحمی ہے۔ زلزلوں کے سلسلے بھی شروع ہیں اور مزید ژالہ باری کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے۔ مساجد میں پنج وقتہ نمازوں میں گڑگڑا کر دعائیں مانگنی چاہئیں۔ کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حادثات کو مادّہ پرست مادّی اسباب کے تابع دیکھتے ہیں مگر اسلام کی تعلیمات یہ بھی ہیں کہ انہیں اللہ کی طرف سے تنبیہات سمجھنا چاہیے۔ مدینہ منورہ میں جب طوفانی آندھی آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے تھے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس میں جو خیر ہے اور جو خیر اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے‘ وہ چاہتا ہوں اور اس میں جو شر ہے اور جو شر اس میں مستور ہے اور جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے‘ اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (ترمذی: 3449)