رپورٹ: علی ہلال
مئی 2014ء سے بھارت میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے جہاں بھارت کے اندر مسلمانوں کے خلاف مذہبی نفرت اور حکومتی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے وہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے وادی کو جہنم بنادیا ہے۔ خاص طور پر اگست 2019ء کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ناروا ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس کا خونی دور ابھی جاری ہے۔
منگل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کا واقعہ رونما ہونے کے بعد مقبوضہ وادی کے باشندوں کا کہناہے کہ وہ شدید خوف وہراس کا شکار ہیں اور بھارتی فورسز نے علاقے میں حملے کے فوری بعد سرچ آپریشن کا سلسلہ وسیع کردیا ہے۔ گھر گھر تلاشی کا عمل جاری ہے۔ جبکہ رات گئے بیشتر علاقوں میں کشمیری مسلمانوں کو گھروںسے نکال کر کئی کئی گھنٹوں تک باہر رکھا گیا۔ گھروں کی تلاشی کے دوران چادر اور چار دیواری کا تقدس بری طرح پامال کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت نے پہلگام کارروائی کو سات اکتوبر کا نام دیتے ہوئے اسرائیل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جس کے باعث رات گئے سے مقبوضہ کشمیر میں شدید خوف وہراس کی فضا قائم ہے۔
منگل کو پہلگام حملے کی خبر انڈین میڈیا پر شروع میں ایک چھوٹے پیمانے پر ہونے والے حملے کے طور پر نشر کی گیی جس میں ابتدائی طور پر بتایا گیا تھا کہ اس حملے میں دو سیاح زخمی ہوئے ہیں۔
بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی خبر کافی دیر کے وقفے کے بعد اور ذرائع کے حوالے سے جاری کی گئیں۔تاہم ایک دن اور رات گزر جانے کے باوجود بھی انڈیا میں سرکاری سطح پر اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ پہلگام میں مسلح افراد کے ایک حملے میں انڈین بحریہ کے افسر سمیت کم از کم 26 سیاحوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ جس پر عالمی سطح پر متعدد ممالک نے تشویش ظاہر کی ہے ۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس انڈیا کے دورے پر ہیں۔ جبکہ منگل کو سعودی عرب کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہونے والے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر میں سکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر اپنا دورہ مختصر کر کے بدھ کی علی الصبح واپس انڈیا پہنچ چکے ہیں۔
انڈیا واپس پہنچنے کے فورا بعد وزیر اعظم مودی نے ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور دیگر حکام نے شرکت کی ہے۔اگرچہ برطانوی خبررساں ادارے سمیت متعدد اداروں کا ماننا ہے کہ تاحال کسی گروہ یا عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ انڈیا اور پاکستان کی جانب سے بھی اس پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم رات گئے ایک عرب خبررساں ادارے نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر ریزسٹنس نامی تنظیم نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس تنظیم کے حوالے سے کہا جارہا تھا کہ اس نے جاری بیان میں کہاہے کہ وادی میں اسی ہزار سے زائد غیر مقامی افراد کو بسایا گیا ہے جس کے باعث مقامی آبادی کی ساخت تبدیل کی جارہی ہے۔ اس کے خلاف مقامی لوگوں میں سخت ردعمل پایا جارہاہے۔ تاہم اس کے برعکس پہلگام حملے کے فوری بعد بھارتی میڈیا اور بھارتی جنتا پارٹی کے انتہاپسند عناصر نے پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔
انڈین چینلز کے کئی اینکرز، دفاعی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے انڈین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو اس کا جواب دے۔برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق انڈین فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار سید عطا حسین نے این ڈی ٹی وی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل پر سات اکتوبر کے حماس حملے کی کاپی ہے۔ یہ حملہ سکیورٹی فورسز پر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ غیر مسلح سیاحوں پر کیا گیا ہے۔ یہ حملہ پورے ملک پر کیا گیا ہے۔اسی چینل پر ایک دوسرے دفاعی تجزیہ کار سابق میجر جنرل سنجے میسٹن نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی تو ضرور ہو گی۔ لیکن اس بار حکومت کو فوج کو کھلا ہاتھ دینا چاہیے۔چینل ٹائمز نے سرخی لگائی کہ ہلاک شدگان اپنے مذہب کی وجہ سے مارے گئے۔ اس دوران بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایک تجزیہ کار سوشانت سرین نے پڑوسی ملک کی فوج اور مسلمانوں پر ہندوؤں سے نفرت کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ علیحدگی پسندی کی تحریک نہیں۔
یہ ایک خالص جہادسٹ اسلامسٹ تحریک ہے۔ اینکر ناویکا کمار نے پروگرام کے اختتام میں کہا کہ ‘اب بات حد سے نکل چکی ہے۔ آج انڈیا کی روح پر حملہ کیا گیا ہے۔ آج پورے ملک پر حملہ ہوا ہے۔ انھیں (پاکستان)اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ پاکستان کے خلاف بغیر کسی جواز کے شرانگیزی کا عمل جاری ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں انڈین میڈیا پر چلنے والے اس بیانیے کی تردید اور مذمت کی جارہی ہے۔پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈین میڈیا کا پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا من گھڑت اور جھوٹا ہے، فالس فلیگ کا ڈرامہ رچانا انڈین روایت ہے۔
جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو بجائے تحقیقات کے انڈیا پاکستان پر الزام دھر دیتا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے انڈیا اس واقعے کی مکمل چھان بین کرے۔ ان کے مطابق انڈین ایجنسیاں اس نوعیت کی دہشت گردی کے واقعات میں خود ملوث ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی انڈیا کی جانب سے پاکستان کے علاوہ کینیڈا اور امریکا سمیت مختلف ممالک میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان پر الزام لگانا انڈیا کا پرانا وطیرہ ہے جس پر عالمی برادری یقین نہیں کرتی۔انڈین میڈیا کی جانب سے سامنے آنے والے الزامات اور پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کے مطالبات پر پر ردعمل دیتے ہوئے انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے اپنے ایکس اکانٹ پر لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ انڈیا کی کسی بھی قسم کی بزدلی کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان پوری طرح تیار ہے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار پاکستان کا جواب منہ توڑ ہو گا۔