رپورٹ: علی ہلال
بائیس ماہ کے ظالمانہ اسرائیلی محاصرے کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی برادری اور اسلامی ممالک کی دیکھا دیکھی اہل غزہ کو ہر قسم کی انسانی امداد سے محروم رکھنے کی اسرائیلی پالیسی کے نتیجے میں اہل غزہ زندگی کی رمق بچانے کی آخری کوشش کے طور پر نمک اور پانی کا ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
عرب میڈیا اور غزہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور امدادی کارکنوں کے مطابق غزہ میں شدید اسرائیلی محاصرے کے باعث بھوک انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اس کے نتیجے میں خوراک کی شدید قلت کے پیش نظر لوگوں نے صرف پانی اور نمک پر گزارا کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ ان فلسطینیوں نے جو قحط کا شکار ہوچکے ہیں، عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اب پانی اور نمک پر گزارا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کیونکہ زندگی بچانے والی خوراک کی اشیاءکی شدید اور غیرمعمولی قلت ہوچکی ہے۔
جبالیہ کیمپ سے بے دخل ہونے والے ابوصخر نے کہا کہ وہ اور اُن کے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان آئندہ چند گھنٹوں میں پانی اور نمک پر گزارا شروع کرنے کے لیے خود کو تیار کررہے ہیں، کیونکہ وہ کسی بھی قسم کی خوراک مہیا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، خاص طور پر آٹا جو کہ روٹی بنانے کے لیے ضروری ہے اور جو غزہ میں بنیادی غذا سمجھا جاتا ہے۔ ابوصخر نے بتایا کہ وہ غزہ کی مارکیٹوں میں سستا آٹا تلاش کرتے پھرے، مگر نہ صرف آٹا دستیاب نہیں بلکہ اس کی قیمت بھی ان کی پہنچ سے باہر ہے۔ ایک کلو آٹا کم ازکم 110 شیکل (تقریباً 30 امریکی ڈالر) میں مل رہا ہے جو اُن کے بس سے باہر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا واحد حل اب یہی ہے کہ وہ صرف پانی اور نمک پر گزارا کریں تاکہ ان کی آنتوں میں سڑاند نہ پڑجائے جو دو دن سے مکمل خالی ہیں۔
ابوصخر نے خبردار کیا کہ غزہ میں قحط کے شکار لوگوں کے لیے ایک ’سست موت‘ کا خطرہ بہت شدید ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں اپنی آنکھوں سے اپنے پڑوسیوں، خاص طور پر عورتوں اور بزرگوں کو بھوک کی وجہ سے گر کر بے ہوش ہوتے دیکھتا ہوں، جنہیں بعد میں زخمیوں اور مریضوں سے بھرے اسپتالوں میں لے جایا جاتا ہے۔مشرقی غزہ سے بے دخل ہونے والے یوسف نصار نے تصدیق کی کہ وہ، اُن کے بچے، بھائی بہنیں اور ان کی اولاد سمیت تقریباً 50 افراد پر مشتمل ان کا بڑا خاندان، قحط کے باعث ایک شدید اور بے مثال کفایت شعاری کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔ عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کے سب افراد، یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی، روزانہ روزہ رکھتے ہیں کیونکہ کھانا بہت کم ہے اور افطار صرف تھوڑے سے دستیاب دال یا روٹی سے کرتے ہیں، تاکہ بھوک کی موجودہ لہر سے کسی طرح نمٹا جا سکے۔
نصار نے اشارہ دیا کہ آنے والے دنوں میں وہ بھی صرف پانی اور نمک پر گزارا کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، جیسے کہ قابض جیلوں میں قیدی ہڑتال کے دوران کرتے ہیں اور صرف پانی اور نمک پر زندہ رہتے ہیں۔ عرب خبررساں ادارے کے مطابق ایک خاتون مریم البراوی نے بتایا کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے حقیقتاً صرف پانی اور نمک پر گزارا کر رہی ہیں، تاکہ قحط، بازاروں میں خوراک کے ختم ہو جانے اور جو تھوڑا بہت بچا ہے اس کی مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں۔خاتون کے مطابق میں اپنے چار بچوں کے لیے شوربہ بنا رہی ہوں۔میں پانی میں نمک ڈالتی ہوں، اس میں جو بھی تھوڑا بہت مصالحہ دستیاب ہوتا ہے شامل کرتی ہوں اور پھر ہم سب اسے شوربہ سمجھ کر پیتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں اللہ کی قسم کھا کر: ”تین دن سے میں نے کوئی کھانا یا روٹی نہیں کھائی، جو تھوڑا بہت کھانا پڑوسی مہاجرین سے ملتا ہے، وہی بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کرتی ہوں۔ بھوک میری آنتوں کو کاٹ رہی ہے، تین دن سے نیند بھی نہیں آئی، پیاس بجھانے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن بے سود۔ خدا کرے ہمیں جلد کوئی حل مل جائے، اس سے پہلے کہ ہم بھوک سے مر جائیں۔“
وزارتِ صحت نے بھی قحط کے پھیلاو کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ تمام عمر کے بھوکے شہری غیرمعمولی تعداد میں شدید کمزوری اور نقاہت کی حالت میں ایمرجنسی میں پہنچ رہے ہیں۔ہم خبردار کرتے ہیں کہ سیکڑوں افراد جن کے جسم لاغر ہو چکے ہیں، بھوک کی شدت اور جسمانی طاقت ختم ہونے کے باعث یقینی موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ دوسری طرف غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے اطلاع دی ہے کہ بھوک اور غذائی قلت سے شہید ہونے والوں کی تعداد 690 سے تجاوز کرگئی ہے، جن میں 69 بچے بھی شامل ہیں جو اسرائیلی محاصرے کے تسلسل اور کسی مو¿ثر انسانی مداخلت کی عدم موجودگی کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔
غزہ میں جاری بھوک و پیاس کی حالیہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے حماس کے عسکری ونگ ’کتائب القسام‘ کے ترجمان نے بیان جاری کیا ہے جس پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وسیع پیمانے پر ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ انہوں نے اُمت کے قائدین، بڑی سیاسی جماعتوں اور علماءکی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ابوعبیدہ نے کہا کہ اُمت کے قائدین، اس کی بڑی جماعتیں اور علماء اس خاموشی میں شریک ہیں جو کہ اسرائیلی قبضے کے تحت فلسطینیوں پر غزہ میں مسلط کیے گئے قحط اور قتل عام کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تاریخ کے سامنے انتہائی دکھ اور درد کے ساتھ اپنی پوری امت کے سامنے کہتے ہیں اے اسلامی و عربی امت کے قائدین! اے اُس کی نمایاں شخصیات، جماعتیں اور علمائ! تم ہمارے خلاف اللہ کے حضور خصم ہو، تم ہر یتیم بچے، ہر غمزدہ ماں، ہر بے گھر و بے وطن، زخمی اور بھوکے شخص کے خلاف اللہ کے سامنے خصم ہو۔“
دوسری جانب فلسطینی حکومت نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی ”بھوک کے ذریعے نسل کشی“ کو فوری طور پر روکنے کے لیے اقدام کرے۔ یہ بات فلسطینی صدر کے نائب حسین الشیخ نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہی۔ حسین الشیخ نے کہا: فلسطینی قیادت نے دنیا کے ممالک اور ان کے رہنماو¿ں کو ہنگامی پیغامات بھیجے ہیں اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف جاری بھوک کی نسل کشی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اورفوری اقدامات کریں جو خاص طور پر غزہ میں بچوں کو نگل رہی ہے۔انہوں نے مزید کہ جو ”جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر خاموشی اختیار کرنے والے انسانیت کے ضمیر پر ایک داغ ہے۔ اس جنگ کو فوراً روکا جانا چاہیے اور فلسطینی عوام کی جان بچائی جانی چاہیے۔“ واضح رہے کہ 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کے تمام بارڈر کراسنگز بند کر رکھے ہیں اور غذائی و طبی امداد کے داخلے کو مکمل طور پر روک دیا ہے جس کے نتیجے میں بنیادی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور بازاروں میں شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
