رپورٹ: علی ہلال
مشرق وسطیٰ کے اہم عرب اسلامی ملک شام میں گزشتہ اتوار کے روز سے امن وامان کی صورتحال خراب ہے۔ اتوار کو السویداء میں شروع ہونے والی بدامنی اور مسلح خونریز کشیدگی کی وجہ شام کے جنوب میں اردن کی سرحد پر واقع اس صوبے کے دروز مذہب والوں اور عرب بدو قبائل کے درمیان شروع ہونے والا تنازع تھا، جو مقوس نامی علاقے میں شروع ہوکر پورے صوبے میں پھیل گیا۔
اتوار کو حالات خراب ہوگئے تو بدو اور دروز کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد مارے گئے جس پر منگل کو شامی فورسز نے امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنے لیے صوبے میں انٹری ماری، تاہم اس دوران دروز کے ایک سربراہ شیخ حکمت ہجری نے شامی فورسز کی تعیناتی اور مداخلت کی مخالفت کرتے ہوئے بین الاقوامی قوتوں سے مدد مانگی، جس پر لبیک کہتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹس نے فوری مداخلت کا اعلان کردیا۔ بدھ کو اسرائیلی طیاروں اور میزائل حملوں میں شام میں 160 مقامات کو نشانہ بنایا گیا جبکہ دمشق سے جانے والے فورسز قافلوں کو بھی ایک سو میزائل مار کر نشانہ بنایا گیا۔ دمشق میں وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر سمیت جنرل اسٹاف اور صدارتی محل کے داخلی راستے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل کی اس جارحیت کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے تاہم اب تک کوئی اسلامی یا غیراسلامی ملک عملی طور پر آگے نہیں بڑھا۔ بدھ کو شامی فورسز نے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے دروز کے تین گدی نشینوں میں سے ایک اہم گدی نشین شیخ یوسف جربوع کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کی۔ تاہم شیخ حکمت ہجری جو براہ راست اسرائیلی حمایت یافتہ ہیں، نے مذاکرات اور معاہدے کی مخالفت کردی اور اس وقت تک حکمت ہجری کے فالورز اور مسلح ملیشیا گروپس صوبے میں اسرائیلی جھنڈے لیے مارچ کررہے ہیں۔
السویداء میں حالیہ واقعہ کو دسمبر 2024ء میں بننے والی احمدالشرع کی حکومت کے خلاف ہونے والی دوسری بغاوتی کوشش کی نظر سے دیکھا جارہاہے۔ اس سے قبل 6 مارچ 2024ء کو شام کے ساحل ریجن میں بغاوت ہوئی تھی جسے شامی فورسز نے بڑی کامیابی کے ساتھ کچل دیا تھا۔ اس بغاوت کا الزام شام کے معزول صدر بشار الاسد کی باقیات پر عائد ہوا تھا جبکہ شامی حکومتی میڈیا اور ذرائع کے مطابق علوی اور نصیری فرقوں کی حمایت کے بھی شواہد سامنے آئے تھے۔
السویداء صوبہ شام کے جنوب مغرب میں دمشق کے ساتھ ملحقہ واقع ہے۔ اس کے مشرق میں دمشق جبکہ مغرب میں درعا واقع ہے۔ السویداءکی جنوبی سرحد اُردن کے ساتھ ہے۔السویداء دارالحکومت دمشق سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس صوبے کی اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ملتی بلکہ السویداءاور اسرائیل کے درمیان درعا اور قنیطرہ نامی دو صوبے واقع ہیں۔ السویداء کو زرعی پیداوار کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اس کا انگور اور سیب پورے خطے میں مشہور ہیں۔السویداءکو جبل العرب کہاجاتاہے۔ صوبے کا رقبہ 6 ہزار 500 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے بڑے شہروں میں السویداء،شہباءاور صلخد نمایاں ہیں۔صوبے کی 7 لاکھ 70 ہزار آبادی میں اکثریت دروز مذہب کے لوگوں کی ہے جبکہ کچھ عرب بدو اور مسیحی بھی السویداءمیں آباد ہیں۔ السویداء کو ماضی میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بڑی بغاوتوں کا گڑھ سمجھا جاتا رہاہے۔ اسی علاقے سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بڑی بغاوتیں ہوئی ہیں۔
دُروز بنیادی طور پر عرب ہیں، انہیں بنومعروف بھی کہا جاتا ہے اور یہ علاقے کی پہلی اقلیتی کمیونٹی اور عرب قبیلہ ہے جس نے 1948ء میں اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ 1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ میں بھی دروز نے اسرائیل کی کھلی حمایت کی تھی۔ 1956ء میں دروز نے اسرائیلی فورسز میں جبری بھرتی کے قانون کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اس وقت سے اسرائیلی فورسز میں دروز واحد عرب کمیونٹی کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔
السویداء ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ السویداء دروز کا علاقے میں سب سے بڑا گڑھ ہے۔ شام اور لبنان کے تمام دروز اسرائیل کے حامی نہیں ہیں۔ السویداء میں اس وقت دروز کی کئی گدیاں (مشیخیات) قائم ہیں جن میں حکمت ہجری، یوسف جربوع اور حمودالحناوی شامل ہیں۔ ان میں حکمت ہجری وہ شخص ہیں جو شروع سے ہی شام کی نئی انتظامیہ کے مخالف ہیں اور احمدالشرع کی حکومت کو دہشت گرد گروپ قراردیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنے الحاق کا مطالبہ کررہا ہے۔ دیگر دروز میں سے کچھ شام کو ایک وفاقی جمہوریہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ بعض السویداءکو خودمختار صوبہ بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں جہاں شامی فورسز کا عمل درآمد نہ ہو۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین جانتے ہیں کہ اسرائیل دروز کے معاملے میں دلچسپی کیوں لے رہاہے۔ اسرائیل روز اوّل سے دروز ریاست کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔ شام کو ٹکڑے کرنے کے لیے کُرد اور دروز اسرائیل کے اہم ترین مہرے ہیں۔ شام کے ایک سینئر صحافی نے 1985ء میں شائع ہونے والی کتاب میں دروزی اور رومانی ریاستوں کے نام سے شام کو تقسیم کرنے کے صہیونی منصوبے کا بڑی تفصیل کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے۔ اسرائیل دمشق اور اسرائیل کے درمیان حد فاصل کے طور پر ایک حلیف ریاست کے قیام کے لیے سرگرم ہے جس میں السویداءکو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
