غزہ کی آواز دبانے کی کوششیں، شہید صحافیوں کی تعداد 231 ہوگئی

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ کی خاک اڑاتی گلیوں، خون میں لت پت عمارتوں اور دھوئیں سے ڈھکے آسمان کے نیچے ایک اور المناک باب رقم ہو چکا ہے۔ اسرائیلی بمباری کی اندھی گھن گرج مسلسل ان آوازوں کو خاموش کر رہی ہے جو تمام تر مشکل حالات کے باوجود دنیا کو صہیونیت کا گھناﺅنا ترین چہرہ دکھانے اور حقیقت بتانے میں مصروف ہیں۔
بدھ  کے روز بھی دو فلسطینی صحافیوں کو شہید کردیا گیا۔ ولاءالجعبری جنہوں نے برسوں تک سچ لکھا، سچ آواز بنیں اور جن کی آنکھیں ہر المیے کی گواہ تھیں، اب خود اسی داستانِ درد کا حصہ بن گئیں۔ گزشتہ روز اسرائیلی فضائی حملے میں وہ اپنے پانچ بچوں سمیت شہید ہو گئیں اور ان کے ساتھ ایک اور صحافی تامر الزعانین کی شہادت کی خبر نے اس خونی فہرست کو 231 تک پہنچا دیا۔یہ تعداد اب صرف ایک شماریاتی حقیقت نہیں بلکہ انسانی المیے، پیشہ ورانہ قربانی اور بین الاقوامی ضمیر کی آزمائش کا استعارہ بن چکی ہے۔ غزہ میں صحافت اب محض پیشہ نہیں رہا، یہ موت کے سائے میں جینے کا نام ہے۔ ایک ایسا خطرناک مشن جہاں کیمرہ اٹھانا بم پھاڑنے کے مترادف ہے اور سچ بولنا اپنی قبر کھودنے جیسا عمل۔فلسطینی حکومت کے میڈیا دفتر کے مطابق اب تک کی جنگ میں 231 صحافی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ان میں سے اکثریت کا تعلق غزہ سے تھا۔ ان میں ایاز خطورة، جبر ابو حدروس، ہشام النواجح، دعاءشرف، یحییٰ صبیح، فاطمہ حسّونا، حسن اصلح اور اسماعیل الغول جیسے نام شامل ہیں، جنہیں میڈیا کی دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان میں زیادہ تر مرد ہیں لیکن خواتین کی بھی بڑی تعداد اس فہرست کا حصہ ہے۔ اسماعیل الغول الجزیرہ سے وابستہ وہ نوجوان رپورٹر تھے جو غزہ کے ایک اسپتال سے براہِ راست نشریات دے رہے تھے، جب اسرائیلی میزائل نے اسپتال کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ فاطمہ حسّونا 25 سالہ فوٹو جرنلسٹ جن کی تصاویر عالمی اخبارات کی زینت بنیں، اب خاموشی کی تصویر بن چکی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی (AFP) نے رپورٹ کیا ہے کہ ان کے غزہ میں موجود مقامی نمائندے بھوک سے مرنے کے قریب ہیں کیونکہ خوراک، دوا اور تحفظ کی ہر اُمید دم توڑ چکی ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) کے مطابق صرف 2025ءکے ابتدائی چھ ماہ میں 171 فلسطینی صحافی اور میڈیا ورکرز جاں بحق ہو چکے ہیں۔ رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز (RSF) نے اس جنگ کو صحافیوں کے لیے دنیا کی تاریخ کی سب سے مہلک جنگ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق غزہ اس وقت دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ بن چکا ہے جہاں نہ صرف صحافیوں کو جان کا خطرہ لاحق ہے بلکہ خبریں پہنچانے کی پوری صلاحیت منہدم ہو چکی ہے۔CPJ (کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ اب تک 186 صحافی اس تنازع میں ہلاک ہو چکے جن میں سے 178 فلسطینی ہیں مگر اس سب کے باوجود بین الاقوامی ادارے صرف تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی باضابطہ کارروائی، کوئی پابندی، کوئی عالمی عدالت میں مقدمہ نہیں۔ادھر مسلم دنیا کے حکمران جن کے دلوں میں کبھی القدس کی حرمت دھڑکتی تھی، اب مجرمانہ خاموشی کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ نہ کسی عرب سربراہ کی آنکھ نم ہے، نہ کسی اسلامی تنظیم کا ہنگامی اجلاس۔ غزہ جل رہا ہے، قلم کار مر رہے ہیں اور عالمِ اسلام خاموش ہے….!!
یہ صرف افراد نہیں تھے، یہ وہ آوازیں تھیں جو ظلم کے پردے چاک کرتی تھیں۔ تامر الزعانین وہ صحافی تھے جنہوں نے بچوں کی تصویریں، زخمیوں کے کرب اور شہیدوں کے جنازے دنیا کے سامنے رکھے۔ ولاءالجعبری نے خود ماں ہونے کے ناطے غزہ کی ماو¿ں کی آہٹوں کو عالمی ضمیر تک پہنچایا۔ آج وہ اپنے بچوں سمیت زمین کی آغوش میں سو گئی ہیں، لیکن ان کی خاموشی خود ایک چیخ ہے، ایک الزام جو اقوامِ عالم کے چہرے پر سیاہی بن کر چمک رہا ہے۔یہ اعداد و شمار صرف ایک پیشے سے وابستہ افراد کی موت کا اعلان نہیں بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں پوری دنیا کی منافقت جھلک رہی ہے۔ جب ایک صحافی قلم یا کیمرہ یا پھر مائیک اٹھاتا ہے تو وہ صرف رپورٹنگ نہیں کرتا، وہ ایک عہد نبھاتا ہے اور غزہ کے ان صحافیوں نے یہ عہد اپنی جانوں سے وفا کر کے نبھایا۔
اب سوال باقی ہے: کیا دنیا ان کی شہادت کو تسلیم کرے گی؟کیا کبھی عالمی عدالتوں میں اسرائیلی افواج کے خلاف وہ مقدمات چلیں گے جن کے گواہ وہ ویڈیوز، تصاویر اور رپورٹس ہیں جو انہی صحافیوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا تک پہنچائیں؟ بین الاقوامی قوانین کی رو سے دجالی ریاست کی رو سیاہی واضح ہوچکی ہے مگر فی الحال اس کا جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔ غزہ میں صرف خاموشی ہے اور اس خاموشی کے اندر وہ چیخیں ہیں جو کیمروں سے پہلے شہید ہو چکی ہیں۔ یہ صرف غزہ کی جنگ نہیں، یہ سچ کی جنگ ہے اور سچ وقت کے سب سے بڑے ہتھیار سے شہید کیا جا رہا ہے…. خاموشی سے!
واضح رہے کہ ولاءالجعبری سرکاری فلسطینی میڈیا (Wafa Agency)سے وابستہ تھیں۔ انہیں کل 23 جولائی کو تلّ الھویٰ میں صہیونی طیارے نے بمباری کرکے بچوں سمیت شہید کردیا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق وہ حاملہ تھیں، ان کے شوہر امجدالشاعر اور پانچ بچے بھی اس حملے میں شہید ہوئے۔ پیٹ میں موجود بچہ اس کے علاوہ۔ رواں ماہ کی 13 تاریخ کو حسام صالح العدلونی کو شہید کیا گیا تھا۔ وہ آزاد فوٹو جرنلسٹ تھے۔ وہ القرارا (خان یونس) کے ایک خیمے پر ہونے والے حملے کے دوران شہید ہوئے۔ بمباری کے وقت ان کی بیوی اور تین بچوں بھی خیمے میں موجود تھے، سبھی شہید ہو گئے۔ اگلے روز یعنی 13 جولائی کو مقامی صحافی فادی خلیفہ الزیتون (جنوبی غزہ) میں فضائی بمباری کے دوران شہید ہوگئے۔ قبل ازیں 24 مارچ کو الجزیرہ مباشر سے وابستہ عثام شبات کو بیت لاہیا (شمالی غزہ) میں بمباری کے دوران شہید کردیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے انہیں پہلے ہی ہدف قرار دیا تھا۔
یحییٰ صبیح آزاد صحافی اور رپورٹر تھا۔ انہیں 7 مئی کو الرِمال محلہ غزہ سٹی میں فضائی حملہ کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ اس اعتبار سے نہایت دردناک واقعہ تھا کہ شہادت سے کچھ دیر قبل یحییٰ کے یہاں پہلا بیٹا ہوا تھا۔ انہوں نے نومولود کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی اور باہر نکلتے ہی شہید ہوگئے۔ 13 مئی کو حسن اصلیح کو شہید کیا گیا۔ وہ غزہ کے مشہور ترین صحافیوں میں سے تھے۔ Alam24 News کے ڈائریکٹر اور سینئر صحافی تھے۔ انہیں ناصر اسپتال، خان یونس میں فضائی حملہ کرکے شہید کیا گیا۔ وہ پہلے حملے میں زخمی ہوئے اور بعدازاں اسپتال کے سرجری یونٹ میں دجال نے ان پر ڈرون حملہ کیا۔ 30 جون کو اسماعیل ابوحتّاب شہید ہوئے۔ وہ آزاد فوٹو جرنلسٹ تھے۔ اسماعیل البقا کیفے میں موجود تھے جسے دجالی فوج نے بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس خوفناک حملے میں اسماعیل سمیت 41 افراد شہید ہوگئے۔ یہ فہرست بہت ہی طویل ہے اور ہر شہید کی زندگی ایک پوری داستان ہے۔