رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی فورسز نے دو ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں امداد لینے کے لیے آنے والے 995 فلسطینی باشندوں کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ زخمی ہونے والوں افراد کی تعداد 6 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا سینٹر کے مطابق 45 افراد اب تک لاپتہ ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق عالمی ادارہ خوراک ڈبلیو ایف پی نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں بھوک کا بحران شدت اختیار کرتے ہوئے غیرمعمولی سطح تک پہنچ گیا ہے، اس وقت غزہ کی صورتحال یہ ہے کہ ہر تین میں سے ایک شخص ایسا ہے جسے کئی روز تک کھانا نہیں ملا۔ ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ میں امداد کے منتظر متاثرین کے ہجوم پر اسرائیلی ٹینکوں، سنائپرز اور دیگر ذرائع سے گولیاں برسائی جارہی ہیں، حالانکہ وہ صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ غزہ میں لوگ امداد کی کمی کے باعث موت کے منہ میں جانے لگے ہیں اور عالمی برادری اور تمام فریقین سے اپیل کی گئی ہے کہ غذائی امداد کو غزہ کے بھوکے عوام تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کی جائے۔
عالمی ادارہ خوراک نے کہا کہ اتوار کے روز امداد کے منتظر افراد پر فائرنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کا کام کتنے خطرناک حالات میں ہورہا ہے۔ ادارے کے مطابق 25 ٹرکوں پر مشتمل امدادی قافلہ اتوار کو زیکیم گزرگاہ سے شمالی غزہ میں داخل ہوا جہاں بڑی تعداد میں شہریوں نے امداد کے حصول کے لیے قافلے کو گھیر لیا، جس کے نتیجے میں ان پر فائرنگ کی گئی اور کئی افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر نے کہا ہے کہ ”شہریوں کو بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔“ اقوام متحدہ کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں خاندان تباہ کن اور مہلک بھوک کا سامنا کررہے ہیں، بچے شدید کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں اور کچھ خوراک ملنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ دفتر نے کہاہے کہ خوراک کی تلاش میں لوگ اپنی جانیں داو پر لگا رہے ہیں اور بہت سے افراد پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ اس نے زور دے کر کہا کہ انسانی امداد کی بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی ایک قانونی اور اخلاقی ضرورت ہے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی ایجنسی (اونروا) نے پیر کے روز ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی محاصرہ ختم کیا جائے تاکہ وہاں جاری قحط کو ختم کیا جاسکے۔ ایجنسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں کہاہے کہ ہمیں غزہ سے قحط کے بارے میں انتہائی مایوس کن پیغامات موصول ہورہے ہیں، جن میں ہمارے اپنے ساتھیوں کی اطلاعات بھی شامل ہیں۔ اونروا نے بتایا کہ غذائی اشیاءکی قیمتوں میں چالیس گنا اضافہ ہو چکا ہے جو مسلسل جاری محاصرے کے سنگین نتائج کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایجنسی نے مزید کہ اس وقت غزہ کی سرحد کے قریب اونروا کے گوداموں میں اتنی خوراک موجود ہے جو تین ماہ سے زائد عرصے تک تمام شہریوں کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا اسرائیل کے ہاتھوں امداد لینے کے لیے آنے والے اہل غزہ کے قتل عام میں برابر کا شریک ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے نے اپنی رپورٹ میں امریکا میں کام کرنے والی ایک یہودی تنظیم کے بارے میں نیا انکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ یہودی تنظیم امریکا میں چندہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے رضاکاروں کے اخراجات ارسال کررہی ہے تاکہ صہیونی فوج کو غزہ میں افرادی قوت کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ پر جنگ اپنے دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ اس دوران شہریوں نے اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور فوجیوں نے ریزرو سروس (فوجی خدمات کی دوبارہ طلبی) میں شمولیت سے انکار کیاہے۔تقریباً 1 لاکھ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے خدمت سے انکار کے بعد امریکا اور دیگر ممالک سے آنے والے رضاکار اسرائیلی فوج کو تقویت فراہم کررہے ہیں۔ گزشتہ سال اسرائیلی فوج نے اندازہ لگایا کہ کم از کم 23,000 امریکی شہری فی الحال اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ افراد اُن امریکیوں پر مشتمل ہیں جو اکیلے فوجی (Lone Soldiers) ہیں یا وہ جو اپنے خاندان کے ساتھ اسرائیل ہجرت کرچکے ہیں۔
’نیفوت‘ (Nefesh B’Nefesh) اور دیگر تنظیمیں سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر، ویڈیوز اور بیانات شیئر کرتی ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ اکیلے فوجی غزہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اسی مہینے کے آغاز میں نیفوت نے ایک ویڈیو کو فروغ دیا جس میں فائرنگ کی مشق کے دن کو ”مزے دار گولی چلانے کا ایک ہلکا سا تجربہ“ قرار دیا گیا۔ ویڈیو میں مکمل وردی میں ملبوس ایک شخص کہتا ہے: یہاں موجود تمام افراد اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان میں سے اکثریت غزہ کی جنگ میں شریک ہے۔‘ انسٹاگرام پر ایک اور ویڈیو میں سابق اکیلے فوجیوں کو دوبارہ جنگ میں واپسی پر غور کرنے کی صورت میں رابطہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔نیفوت کی ایک پوسٹ میں فالوورز کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اکیلے فوجیوں سے کچھ مخصوص سوالات نہ پوچھیں، جیسے ’کیا تم نے کسی کو مارا؟‘ ’وہاں کتنے لوگ مارے گئے؟‘ ’کیا تم غزہ میں تھے یا لبنان میں؟‘ ’کیا تمہیں شرکت پر افسوس ہے؟‘پوسٹ میں خبردار کیا گیا کہ ایسے سوالات حقارت آمیز، سیاسی یا جذباتی محسوس ہوسکتے ہیں۔
ادھر جبکہ امریکی قانون ساز اور اقوامِ متحدہ امریکی اسلحے کی اسرائیل کو فراہمی پر سوال اٹھا رہے ہیں، ہزاروں امریکی شہری جو اسرائیل جا کر فوج میں شامل ہوچکے ہیں اُن پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ امریکا میں فوجی عوامی تقریبات میں شریک ہوکر اسرائیلی فوج کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایلی وینینگر نامی فوجی نے امریکی ریاست الاباما کی ایک چرچ میں ہونے والی تقریب (جسے ’گروئنگ ونگز‘ نامی تنظیم نے منعقد کیا) میں کہا: ہم پر فلسطینی بچوں کو مارنے کا الزام جھوٹ ہے، میں تو فلسطینی بچوں کے لیے اپنی جان دینے کے قریب تھا۔ اسی سال کے آغاز میں گروئنگ ونگز کی ایک تقریب میں اُس نے کہا: مجھے بچوں کو نہ مارنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ وہاں کوئی فوجی ایسا نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق 7 اکتوبر 2023ءسے اب تک غزہ میں 50,000 سے زائد بچے شہید یا زخمی ہوچکے ہیں۔
