رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل اور امریکا کے مشترکہ منصوبے کے نتیجے میں غزہ میں اقوام متحدہ کے ادارے برائے فلسطینی مہاجرین ’اونروا‘ پر پابندیاں عائد کی گئیں اور غزہ کی متاثرہ پٹی میں انسانی امداد کی تقسیم کی ذمہ داری امریکا میں بننے والے ’غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف‘ ادارے کورواں برس 27 مئی سے دی گئی، جس کے بعد سے اب تک اس ادارے کے مراکز میں امداد کے حصول کے لیے جانے والے سینکڑوں فلسطینی وہاں بیٹھے شارپ شوٹرز کا نشانہ بننے اور اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہارگئے ہیں۔
پیر کی صبح تک امداد لینے کی کوشش کرتے ہوئے موت سے ہم کنار ہونے والے بھوکے پیاسے فلسطینیوں کی تعداد 889 ہوگئی ہے۔ گزشتہ ہفتے متعدد عالمی تنظیموں نے بیک آواز کہاہے کہ امریکا اور اسرائیل کا بنایا ہوا نام نہاد امدادی ادارہ غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف امریکی قاتل کمپنی سابق بلیک واٹر کے پیشہ ور قاتلوں پر مشتمل ہے جس کی سربراہی ایک انتہاپسند صہیونی کررہا ہے۔ اس تنظیم میں امریکی قاتلوں کے ساتھ اسرائیلی اسپیشل کمانڈوز کے پیشہ ور قاتل اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار بھی بیٹھے ہیں۔ ابھی تک یہ معاملہ حل نہیں ہوا کہ غزہ میں امریکا اور اسرائیل کا ایک نیا منصوبہ سامنے آگیا ہے۔
غزہ ہیومن سٹی کے نام سے اس منصوبے کے بارے اسرائیل کا کہناہے کہ اِس سٹی میں غزہ کے جنگ سے متاثرہ نہتے انسانوں کو بسایاجائے گا تاہم اس سے قبل ان کی مکمل چھان بین کی جائے گی کہ ان کا تعلق حماس کے ساتھ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹس نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ جنوبی غزہ میں ایک مکمل بند علاقے کی تعمیر پر مبنی ہے جسے ممکنہ 60 روزہ جنگ بندی کے دوران تعمیر کیا جائے گا۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں تقریباً 6 لاکھ فلسطینیوں کو اس علاقے میں منتقل کیا جائے گا۔ وہاں 4 مراکز بنائے جائیں گے جہاں بین الاقوامی تنظیمیں امداد تقسیم کریں گی۔ بعد میں تمام غزہ کے شہریوں کو اس علاقے میں منتقل کیا جائے گا۔ان شہریوں پر اس علاقے میں سکیورٹی جانچ کی جائے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ حماس سے منسلک نہیں ہیں۔ ایک بار داخل ہونے کے بعد انہیں علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے شہریوں کے لیے اس مجوزہ ’انسانی شہر‘ کے منصوبے نے شدید غصے اور سخت تنقید کی لہر کو جنم دیا ہے۔ ناقدین نے اسے بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی کی تیاری قرار دیا ہے اور اس پر عالمی اور علاقائی سطح پر شدید تنقید ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی اونروا نے اس منصوبے کو ’قیدیوں کا کیمپ‘ قرار دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ ممکنہ طور پر جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ برطانیہ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے وزیر ہامش فالکنر نے کہا کہ وہ اس منصوبے سے ’صدمے میں‘ ہیں اور فلسطینی سرزمین کو کم کرنے یا شہریوں کو واپسی سے روکنے کی مخالفت کی۔ اسی طرح جرمنی کے چانسلر فریڈریش میرٹز نے بھی اتوار کے روز اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے نیوز ادارے کو بتایا کہ وہ کئی ہفتوں سے غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر ناخوش ہیں اور ان معاملات پر وزیراعظم نیتن یاہو سے بھی بات کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی اور امریکی شراکت سے بننے والے منصوبے کے بارے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق یہ ’انسانی شہر‘ فیلادلفیا اور موراغ کے درمیان مصر کی سرحد کے قریب تعمیر کیا جائے گا اور بعد میں اسے فلسطینیوں کی ’جبری نقل‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔اسرائیلی مفادات کے لیے کام کے حوالے سے مشہور فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس منصوبے کو سختی سے مسترد کیا ہے اور اسے ’غیرانسانی‘ اور جبری نقل مکانی کی آڑ قرار دیا ہے۔ حماس نے بھی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی اسکیم کو تسلیم نہیں کرے گی جو اہلِ غزہ کو ایک چھوٹے علاقے میں محصور رکھے۔
دوسری جانب عبرانی میڈیا کے مطابق اس منصوبے کے بارے میں اسرائیلی حلقوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا کہ اس سے فوج اپنے اصل اہداف یعنی حماس کی شکست اور یرغمالیوں کی بازیابی سے ہٹ جائے گی۔ سکیورٹی حکام نے بھی اس منصوبے کو ایک ’دیوقامت خیموں کا شہر‘ قرار دیا ہے جو ممکنہ طور پر غزہ میں دوبارہ فوجی حکومت کے قیام کا سبب بن سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر یائیر لبید نے بھی منصوبے کو ہر لحاظ سے سیکیورٹی، سیاست، معیشت، اور لاجسٹکس کے اعتبار سے ناکام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خود فوج بھی اس منصوبے کی مخالفت کررہی ہے کیونکہ اس سے غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔
انہوں نے تنقیدی انداز میں کہا: ’کیا ہم 6 لاکھ افراد کو ایک باڑ سے گھیرے علاقے میں قید رکھیں گے؟ یہ ایک قیدی کیمپ جیسا منظر ہوگا۔‘ عرب میڈیا کے مطابق اس منصوبے کی متوقع لاگت جو 10 سے 20 ارب شیکل (تقریباً 3 سے 6 ارب ڈالر) ہے نے اسرائیل کے عوام کو بھی ناراض کیا ہے، خاص طور پر موجودہ جنگ کے اخراجات کے پس منظر میں۔ سابق اسرائیلی انٹیلی جنس افسر میخائل میلشتائن نے منصوبے کو ’ایک وہم‘ قرار دیا اور کہا کہ مجوزہ علاقہ بنیادی انفرااسٹرکچر سے بھی محروم ہے، جیسے کہ پانی اور بجلی کی سہولت۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیلی حکومت غیرحقیقی خیالات کو اپنانے لگی ہے اور کوئی بھی عوام کو اس کی قیمت یا سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی نتائج کے بارے میں کچھ نہیں بتا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیلی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ جنگ کا مقصد غزہ پر دوبارہ قبضہ ہے تو اس سے اندرونی خلفشار پیدا ہوسکتا ہے۔ اسرائیل میں 16 بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے وزیردفاع اور فوجی سربراہ کو خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت جنگی جرم ہوسکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب اسرائیل کی طرف سے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر مسلسل نسل کشی کی جنگ جاری ہے، جس میں اب تک 196,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں لاپتہ افراد اور لاکھوں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
