برطانیہ سمیت 26 ممالک کا غزہ میں جنگ بندی کیلئے مہم کا اعلان

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے چھبیس ممالک کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کے 16 اراکین سمیت چھبیس ممالک نے ایک پٹیشن کے ذریعے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لئے مہم چلانے کا اعلان کردیا ہے۔
برطانیہ اور 20 سے زائد دیگر ممالک نے پیر کے روز غزہ میں جاری جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اپنایا گیا امداد فراہم کرنے کا ماڈل ”خطرناک“ ہے، عدم استحکام کو بڑھاتا ہے اور غزہ کے شہریوں کو ان کی انسانی عزت سے محروم کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پیر کو برطانیہ اور 25 دیگر ممالک بشمول یورپی یونین کے نمائندے نے غزہ میں فوری، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور امداد کی فراہمی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے امداد کی فراہمی سے انکار اور اس کے اپنائے گئے تقسیم کے نظام کی مذمت کی ہے۔اس بیان پر دستخط کرنے والے ممالک میں یورپی یونین کے 16 رکن ممالک کے علاوہ جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”اسرائیلی حکومت کی طرف سے اپنایا گیا امدادی ماڈل خطرناک ہے، یہ عدم استحکام کو بڑھاوا دیتا ہے اور غزہ کے عوام کو انسانی وقار سے محروم کرتا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر سے جنگ بندی اور ’ناکام امدادی نظام‘ پر نظرِثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’اسرائیلی حکومت کے وہ کون سے فوجی جواز ہیں جن کی بنیاد پر بھوکے بچوں کو قتل کرنے والی بمباری کی جارہی ہے؟‘
ادھر جرمنی کے چانسلر فریڈرچ میرٹس جن کے ملک نے اس بیان پر دستخط نہیں کیے (اور اس سے قبل ایسے بیانات پر دستخط نہیں کیے تھے)، نے کہا کہ اسرائیلی افواج کا غزہ میں طرزِعمل ناقابل قبول ہے اور انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ہمیں آپ کی حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق قاہرہ میں آج عرب لیگ کے مندوبین کی سطح پر ایک اجلاس ہو رہا ہے جو فلسطین کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔ فلسطین نے سفارتی سطح پر سرگرم مہم شروع کر رکھی ہے اور دنیا بھر میں اپنی سفارتخانوں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ عالمی رہنماو¿ں اور حکومتوں سے رابطہ کیا جاسکے۔ میدانِ جنگ میں اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کے وسطی شہر دیرالبلح میں زمینی کارروائی شروع کر دی ہے جس کی اطلاع عبرانی میڈیا نے دی ہے۔ یہ کارروائی اُس وقت ہو رہی ہے جب ایک روز قبل اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر انخلا کے احکامات جاری کیے تھے جس نے شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (اوچا) نے کہا ہے کہ ان انخلا کے احکامات کی وجہ سے غزہ کے 12 فیصد رقبے میں 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔ اسی دوران اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کو بھی اس کارروائی کے اثرات پر شدید تشویش ہے کیونکہ اسرائیل کو شبہ ہے کہ قیدی ممکنہ طور پر اسی نشانہ بننے والے علاقے میں موجود ہو سکتے ہیں۔
یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب تاحال جنگ بندی کی کوششیں کسی پیش رفت سے قاصر ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی میڈیا بارہا دعویٰ کر چکا ہے کہ پیشرفت ہو رہی ہے۔ اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے نے کل دعویٰ کیا کہ ثالث فریق حماس پر پیش کردہ تجویز کا جواب دینے کے لیے دباو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ادارے کے مطابق اسرائیل مذاکرات میں دباو بڑھانے کے لیے فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔ ایک سیاسی ذریعے کا کہنا تھا کہ اسرائیل اب ان انخلا کے نقشوں پر مزید کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں جو پہلے پیش کیے جا چکے ہیں اور اب حماس کو ان نقشوں کو تسلیم کرنا ہوگا تاکہ جنگ بندی ہو اور غزہ کے عوام کی مشکلات ختم ہو سکیں۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے کے مطابق فرانس، اٹلی، جاپان، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک اور دیگر ممالک نے کہا کہ 800 سے زائد فلسطینی اس وقت شہید ہوچکے ہیں جب وہ امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان ممالک نے امداد کی غیرمنظم تقسیم اور شہریوں کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی۔زیادہ تر شہدا غزہ ہیومینیٹیرین فاونڈیشن (موسّسة غزة الانسانیة) کے مراکز کے قریب جاں بحق ہوئے۔ اسرائیل نے اس ادارے کو امریکا کی حمایت سے اقوام متحدہ کی زیرقیادت امدادی نیٹ ورک کے ذریعے غزہ میں امداد کی تقسیم کی ذمہ داری سونپی ہے۔غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف تنظیم جس کے تحت امدادی پروگرام باضابطہ طور پر چلایا جا رہا ہے، رواں سال فروری میں امریکی ریاست ڈیلاویئر میں قائم کی گئی تھی۔ اس وقت ادارے کی قیادت جونی مور کر رہے ہیں جو ایک امریکی کاروباری شخصیت، انجیلی مسیحی رہنما اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مشیر رہ چکے ہیں۔
تاحال اس پروگرام کی مالی معاونت کے ذرائع ظاہر نہیں کیے گئے جبکہ کئی ممالک اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی امدادی وسائل میں شدید کمی آئی ہے۔یہ پروگرام اس وقت شروع کیا گیا جب اسرائیل نے مسلسل 11 ہفتوں تک غزہ میں غذائی اشیاءکی ترسیل پر پابندی لگا دی تھی، جس سے موجودہ ذخائر ختم ہو گئے اور قحط کے خطرے پر عالمی سطح پر خبردار کیا گیا۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ غزہ کے تمام شہری شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی اونروا کے مطابق معائنے میں شامل 10 فیصد بچوں میں غذائی کمی کی علامات پائی گئی ہیں جبکہ عالمی ادارہ خوراک (World Food Programme) کا کہنا ہے کہ دسیوں ہزار افراد کو غذائی کمی کے باعث فوری علاج کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے کے روز غزہ میں 20 سے زائد فلسطینی اس وقت جاںبحق ہوگئے جب وہ امدادی مراکز کی جانب جا رہے تھے، جیسا کہ مقامی محکمہ صحت نے تصدیق کی ہے۔ اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے امدادی مقام سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے سے فائرنگ کی۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ کے شہریوں پر امدادی نظام کے تباہ کن اثرات کو بہتر دکھانے کی ایک کوشش کے طور پر اسرائیلی حکام نے متعدد صحافیوں کے لیے فیلڈ وزٹ کا اہتمام کیا، جن میں معروف جریدے ایکانومسٹ اور اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ان دوروں میں تازہ ترین ایک رپورٹ ہے جو وال اسٹریٹ جرنل کے دو صحافیوں، دوف لیبر اور عنات بیلیڈ نے تیار کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ یہ امدادی منصوبہ جسے اقوام متحدہ اور حماس کے کردار کو محدود کرنے کے مقصد سے تیار کیا گیا تھا، اب بھوکے فلسطینیوں کو مہلک جھڑپوں میں جھونکنے کا سبب بن چکا ہے۔ خان یونس میں منگل کی صبح ہزاروں بھوکے فلسطینی ایک خار دار باڑ کے پیچھے جمع ہوئے جو غزہ ہیومینیٹیرین فاو¿نڈیشن کے مرکز کے گرد لگی ہوئی تھی۔ جونہی دروازے کھلے ہجوم زور سے اندر کی طرف لپکا۔
امریکی سیکیورٹی کنٹریکٹرز نے صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن درجنوں افراد رکاوٹیں توڑ کر اندر گھس آئے اور خوراک کے ڈبے چھین لیے، جبکہ دیگر ان کے پیچھے دوڑنے لگے۔ کئی افراد موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر زیادہ سے زیادہ خوراک لے جانے کی کوشش میں تیزی سے نکل گئے۔ اس بھگدڑ کے دوران فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں جن کے بارے واضح نہ ہو سکاکہ فائرنگ کہاں سے کی گئی۔ تقریباً پندرہ منٹ کے اندر تمام خوراکی ڈبے غائب ہو چکے تھے۔ یہ مناظر جو وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹرز نے خود دیکھے اور بیان کیے اسرائیل کے زیرِاثر غزہ ہیومینیٹیرین ریلیف کے مراکز پر بار بار دیکھنے میں آتے ہیں۔ دو ماہ قبل اس منصوبے کے آغاز سے اب تک خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ بھیڑ اگر اس کے فوجیوں کے قریب آئے تو گولیاں چلاتی ہے۔ جیسے جیسے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی گئی اقوام متحدہ، درجنوں انسانی حقوق کی تنظیموں اور 20 سے زائد حکومتوں نے اس نئے امدادی نظام کی مذمت کی ہے۔