ٹرمپ کے دعوے کے باوجود اسرائیل‘ حماس میں امن معاہدہ کیوں نہیں ہورہا؟

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر بات کرتے ہوئے ایک بار پھر نیا ٹائم فریم دے دیاہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’امید ہے کہ ہم اگلے ہفتے تک یہ مسئلہ سلجھا لیں گے۔‘
صدر ٹرمپ پچھلے کئی ہفتوں سے ہر بار ایک ’نیا ہفتہ‘ دیتے آرہے ہیں مگر معاہدہ تاحال دور کی بات ہے جبکہ خونخوار وحشی غزہ کے معصوم بچوں کے لہو پینے میں مصروف ہیں اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جارہی ہے۔ نیتن یاہو کا مزاج درست کرنے کے لیے واشنگٹن کی ایک ہی ڈانٹ کافی ہے، لیکن اس ڈانٹ کے لیے ہمت چاہیے جس سے امریکی قیادت محروم ہے۔ اب ٹرمپ نے قطری وزیراعظم کو واشنگٹن مدعو کرلیا ہے۔ قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمان الثانی آج (بروز جمعرات) واشنگٹن میں عشائیے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مرکزی نکتہ غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور امن منصوبہ ہوگا۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ غزہ کے مزاحمت کار دیگر عرب رہنماوں کے مقابلے میں قطری قیادت پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ تاہم اصل رکاوٹ اعتماد یا بداعتمادی نہیں بلکہ اسرائیل کا غیرلچکدار رویہ ہے جو نہ مستقل امن کے لیے سنجیدہ ہے اور نہ ہی فوجی انخلا پر آمادہ۔ اس کے برعکس یہ مزاحمت کاروں کی بنیادی شرائط ہیں جس پر پیش رفت کے بغیر کوئی معاہدہ ممکن ہے نہ قیدیو کی رہائی۔
قابض اسرائیلی افواج غزہ میں امدادی مراکز کو نشانہ بنا کر فلسطینی شہریوں کو قتل کر رہی ہیں، جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کی فضا بدستور دھندلے پن کا شکار ہے۔ یہ وہی جنگ بندی ہے جس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’قریب ہے‘۔ ٹرمپ نے دو ہفتے قبل ایک بیان میں امید ظاہر کی تھی کہ جنگ بندی کا معاہدہ جلد طے پا جائے گا مگر قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کے تازہ بیان کے مطابق ’مذاکرات جاری ہیں، جمود نہیں ہے اور میز پر کچھ نئے خیالات بھی رکھے گئے ہیں‘۔تاہم اس بیان میں پیش رفت کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں بلکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو (جو اس وقت عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب ہے) ممکنہ طور پر جان بوجھ کر مذاکرات کو طول دے رہا ہے تاکہ مزید شرائط عائد کر کے عمل کو سست کرسکے۔ سیاسی تجزیہ نگار احمد الحیلة نے الجزیرہ کے پروگرام ’مسار الاحداث‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الانصاری کے بیان سے ایک عمومی مثبت فضا تو بنتی ہے، لیکن مذاکرات کہاں پہنچے ہیں اس کا کوئی واضح جواب موجود نہیں جو کہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
اہم تنازعات کیا ہیں؟
مذاکرات میں سب سے بڑا تنازع اسرائیلی افواج کی غزہ میں تعیناتی اور ان کے پھیلاو کے نقشے سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ امدادی سامان کی تقسیم اور اس کی نگرانی کا طریقہ بھی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ امداد کی فراہمی پر کسی سمجھوتے کی توقع ہے مگر اسرائیل کی کوشش یہ ہے کہ وہ ان امدادی کوششوں کو اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرے، جس میں شہریوں کی نقل مکانی اور دباو¿ ڈالنے کی حکمت عملی شامل ہے۔
انسانی شہر، حقیقت یا فریب؟
اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ’انسانی شہر‘ کے قیام کی تجویز بھی زیر بحث رہی، لیکن نہ صرف بین الاقوامی تنظیموں نے بلکہ خود اسرائیلی فوج نے بھی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں بہت زیادہ وقت اور وسائل درکار ہیں۔ اسرائیلی جنرل (ریٹائرڈ) یسرائیل زئیف نے اس منصوبے کو ’تاریخ کا سب سے بڑا حراستی کیمپ‘ قرار دیتے ہوئے اسے مکمل جنگی جرم (war crime) سے تعبیر کیا۔
قابض کی ذمہ داری کیا ہے؟
سابق امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار تھامس وارک کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک قابض قوت کے طور پر قانوناً اس بات کا پابند ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں کے شہریوں کو خوراک اور طبی سہولیات فراہم کرے، لیکن وہ اس ذمہ داری کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہا ہے۔
نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی اور امریکی تائید
غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات میں بڑی رکاوٹ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی وہ شرائط ہیں جن کے تحت وہ بعض اہم علاقوں میں فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ فلسطینی مزاحمت کا موقف واضح ہے: مکمل انخلا، آزادانہ نقل و حرکت اور تمام شہریوں کی گھروں کو واپسی۔ اسرائیلی امور کے ماہر مہند مصطفی کے مطابق نیتن یاہو کی ضد ’فیلاڈلفیا، موراغ اور صلاح الدین‘ جیسے اسٹرٹیجک علاقوں میں مستقل فوجی موجودگی سے متعلق ہے تاکہ وہ مستقبل کے لیے ایک نیا سیکورٹی نظم قائم کرسکے۔ ان علاقوں میں موجودگی اسرائیل کے لیے ایک ’زمینی حقیقت‘ بن جائے جو آئندہ نسلوں تک فلسطینیوں کی آزادی کو سلب کرتی رہے۔ نیتن یاہو دراصل ’وقت خریدنے کی پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے۔ وہ ایک طرف معاہدہ ناکام بنانے سے بچنے کا تاثر دینا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنے سخت گیر اتحادیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی کوشش ہے کہ اس ماہ کے آخر یعنی کنیسٹ کی تعطیلات تک کوئی ایسا عارضی حل نکال لے جس سے حکومت قائم رہے، چاہے کچھ جماعتیں حکومت سے الگ ہوجائیں۔
امریکی دباو صرف دکھاوا؟
سابق امریکی سفارت کار تھامس وارک کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت اسرائیل پر دباو ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنی فوجی موجودگی کے نقشے پر نرمی دکھائے، کیونکہ ٹرمپ خود کو ’کمزور صدر‘ کے طور پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس معاملے کو اسی طرح سختی سے لینا چاہتے ہیں جیسے انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ کیا۔ تاہم وارک کی باتوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کو مسلسل سیاسی و عسکری تحفظ فراہم کررہا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے بلکہ انہیں جبراً بے گھر بھی کر رہا ہے۔سیاسی تجزیہ نگار احمد الحیلة کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے اختیار کیے گئے دباو کے تمام حربے آخر میں ایسی ”تجاویز“ میں بدل جاتے ہیں جو صرف نیتن یاہو کی پوزیشن مضبوط کرتے ہیں اور اسے مزید علاقوں پر کنٹرول کی سہولت دیتے ہیں۔
صحت کی تباہی، نسل کشی کی شکل
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے صحت ڈاکٹر تلالنگ موفوکینگ نے اسرائیل پر سخت الزامات عائد کیے ہیں۔ انہوں نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’اسرائیل اور اس کے اتحادی غزہ میں صحت کے شعبے کو منظم طریقے سے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ اقدامات نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ دنیا نے کسی بھی گزشتہ تنازع میں اتنے بڑے پیمانے پر کسی خطے میں زندگی کی بنیادی سہولیات کی تباہی نہیں دیکھی۔ یہ سب کچھ امریکا اور دیگر اتحادیوں کے تحفظ میں ہورہا ہے جنہوں نے اسرائیل کو سزا سے بچا رکھا ہے۔‘