غزہ قتلِ عام نے یہودیوں کو دنیا بھر میں نفرت کا نشاں بنادیا

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل کی متشدد ترین صہیونی حکومت کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی ،وحشیت و درندگی کی بدترین مثال قائم کردی گئی۔ یہ موجودہ دنیا کی بدترین نسل کشی ہے جسے دنیا کے اربوں انسانوں نے ٹی وی ،موبائل اور دیگر مختلف ذرائع پر براہ راست دیکھ لیا۔
عالمی سطح کے تنازعات اور خونریز جنگوں کے امور پر کام کرنے والے ماہرین کا کہناہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی ، بھوک اور پیاس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے ، غیر قانونی ہتھیاروں کے استعمال اور جبری بے دخلی کے لئے آزمائے گئے حربوں نے جرمنی کے نازیوں کے ہاتھوں یہودی ہولوکاسٹ کی کہانیوں کو دھندلا دیاہے۔ دنیا کے پاس اب اس کہانی پر یقین کرنے کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ یہ معاملہ پھٹ کر باہر آئے گا اور اس کی جھلک گزشتہ برس امریکا اور مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں میں نظر آگئی ہے۔ آگے جاکر یہ بڑھے گا۔ ہوسکتا ہے اس جنگ میں غزہ کے فلسطینیوں کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑے اور وہ بظاہر نقصان سے بھی دوچار ہوں لیکن نہتوں کے خون کے چھینٹوں سے یہودی دنیا بھر میں خود کو بچا نہیں سکیں گے۔ اسی کا اظہار عالمی یہودی ماہرین بھی کررہے ہیں۔
اس حوالے سے سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے بیٹے کے حالیہ بیان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ہنٹر بائیڈن جو امریکی صدر جوبائیڈن کے بیٹے ہیں نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں اپنی پالیسیوں کے باعث دنیا بھر میں یہودیوں کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دار قرار دیا۔اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ کے مطابق ہنٹر بائیڈن نے کہا کہ نیتن یاہو کی پالیسیوں کی وجہ سے یہودی عالمی سطح پر کم محفوظ ہو گئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہودیوں کو نیتن یاہو کے ہولناک اقدامات سے جوڑا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو ہر بار غلط ثابت ہوئے۔ وہ اُس لڑکے کی طرح ہیں جو ہر بار جھوٹا الارم دیتا رہا اور ایک دن جب اصل خطرہ آئے گا تو کوئی یقین نہیں کرے گا۔ لوگ نیتن یاہو کی حرکات کو تمام یہودیوں سے جوڑتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر خاص طور پر اسرائیل سے باہر بہت سے یہودی نیتن یاہو کی پالیسیوں کے حامی نہیں، اس کے باوجود انہیں ان پالیسیوں کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہنٹر بائیڈن نے 7 اکتوبر کے حملے سے قبل کی سیکیورٹی خامیوں کو بھی اجاگر کیا اور سوال اٹھایاہے اور کہاہے کہ موساد کے پاس ایک سال پہلے سے 7 اکتوبر کے حملے کے بارے میں دفاعی منصوبے موجود تھے، تو وہ تیار کیوں نہیں تھی؟ جنوبی اسرائیل میں جہاں حملے ہوئے 7 سے 12 گھنٹوں تک کوئی فوجی کیوں موجود نہیں تھا؟انہوں نے غزہ پر اسرائیلی فوجی ردعمل کو بھی تنقید کانشانہ بنایا اور کہاکہ جو کچھ بھی کیا جائے، جب تک آپ غزہ کے ہر فرد کو ختم نہ کر دیں (جو ممکن نہیں)، تب تک نسل در نسل ایسے لوگ ہوں گے جو اسرائیل اور امریکا کا پیچھا کریں گے اور ان کا یہ غصہ جواز رکھتا ہوگا۔‘
انہوں نے غزہ پر بمباری کے ذریعے قابو پانے کے خیال کو ناقابلِ عمل قرار دیا اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس طنزیہ بیان کا حوالہ دیا کہ ’غزہ کو گولف کورس میں تبدیل کر دینا چاہیے‘۔ہنٹر بائیڈن نے نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے خطرے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کہاکہ نیتن یاہو ہر بار غلط ثابت ہوئے، وہ وہی لڑکا ہے جو بار بار کہتا رہا کہ ’بھیڑیا آ گیا ہے اور ایک دن سچ مچ بھیڑیا آ جائے گا‘۔انہوں نے نشاندہی کی کہ نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے جوہری خطرے سے متعلق وارننگز 1996ء سے دی جا رہی ہیں۔ ایک اور معاملے میں ہنٹربائیڈن نے نیتن یاہو پر یرغمالیوں کے معاملے کو نظرانداز کرنے کا الزام بھی لگایا اور کہاکہ انہوں نے ان یرغمالیوں کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا جن کے لیے وہ مذاکرات سے انکار کررہے ہیں جبکہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے معاملات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، جیسے اپنے بیٹے کی منسوخ شدہ شادی کی تقریب، جس پر ہنٹر بائیڈن نے انہیں ’وحشی‘ قرار دیا۔
مشرق وسطیٰ کے امور پر کام کرنے والے ماہرین نے کہاہے کہ غزہ نسل کشی کے اثرات سے وہ عرب ممالک بھی محفوظ نہیں رہے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہیں۔ خلیج اور غیر خلیج کے جن عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں وہ بھی آج کل اسرائیلی باشندوں اور پروجیکٹس کے لیے نوگوایرا بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی باشندے آزادانہ سفر اور سیاحت نہیں کرسکتے۔ نیز کسی بھی شخص کی شناخت اگر کسی بھی جگہ پر یہودی کی حیثیت سے ہوجاتی ہے تو لوگ اسے حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں۔ یہ حالت اس قدربڑھ گئی ہے کہ عرب ممالک اور ترکی میں سیکورٹی فورسز اور سیکورٹی گارڈز تک اسرائیلی باشندوں کو وہ عزت اور احترام دینے کو تیار نہیں ہیں جو کبھی انہیں ملتی تھی۔ رپوٹ کے مطابق اس حوالے سے ہزاروں شکایات سامنے آئی ہیں جس پر اسرائیل کے پیچھے کھڑی صہیونی تنظیمیں شدید پریشانی کا شکار ہیں۔