غزہ کی بچی کھچی بھاری مشینری بھی اسرائیل نے تباہ کر دی

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
اسرائیل اہل غزہ کی نسل ختم کرنے کے لیے زندگی بچانے والی ہر چیز کو تباہ کر رہا ہے۔22 اپریل کو فضائی حملوں میں جنگ بندی کے دوران بھیجے گئے امدادی سامان کو نشانہ بنایا، جس میں شمالی غزہ کے النزل بلدیہ کے گیراج میں موجود بھاری مشینری کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ مشینری جنگ بندی کے دوران مصر اور قطر کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔

اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مشینری حماس کی تھی، جو اسے سرنگوں کی کھدائی اور دھماکہ خیز مواد کی تنصیب کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اسرائیل پہلے بھی بھاری مشینری کو تباہ کرتا رہا ہے۔ لیکن شمالی غزہ میں بچی کھچی تمام ہیوی مشینوں کو تباہ کردیا۔ اس براہ راست بمباری سے جبالیہ النزل بلدیہ کے دفتر میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی اور وہاں موجود بھاری مشینری مکمل طور پر ختم ہوگئی، کیونکہ بمباری کی وجہ سے دفتر آگ کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ انادولو ایجنسی نے بلدیہ کے دفتر اور اس میں موجود مشینری کی تباہی کی ویڈیو جاری کی ہے اور ملازمین اور شہری دستی آلات اور بالٹیوں سے آگ بجھانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ملازم نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں نے بلدیہ دفتر اور وہاں موجود مشینری کو بمباری کا نشانہ بنایا اور ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اسرائیلی فوج کو پتہ ہے کہ یہ مشینری امدادی کارروائیوں اور شہدا کی لاشیں نکالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس لیے اس نے اسے تباہ کر دیا۔جنگ بندی کے دوران، چند ہفتوں کے اندر مختلف بلڈوزر اور بھاری مشینری غزہ میں داخل ہوئی تاکہ ملبہ ہٹایا جا سکے اور شہدا کی لاشیں نکالی جا سکیں، جن کی تعداد فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 11ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے جب بلڈوزر اور بلدیاتی اداروں کے قیمتی آلات کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

اسرائیلی حملوں میں نشانہ بننے والی مشینری میں بلڈوزر، لوڈر، کھدائی کرنے والی مشینیں، ٹینکر گاڑیاں اور دیگر آلات شامل تھے، جو صرف بلدیاتی کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ان کا کوئی عسکری مقصد نہیں تھا، جسے اسرائیل کسی بھی ممکنہ فوجی خطرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خاص طور پر یہ آلات غزہ کے تباہ شدہ علاقے میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔ اسرائیلی بمباری کا ہدف ہی بلڈوزر، لوڈرز اور بھاری مشینری تھی، جو مصر کی مختلف کمپنیوں اور بلدیاتی اداروں کی ملکیت تھی۔ یہ مشینری جبالیہ النزل اور خان یونس کی بلدیہ کے دفاتر میں موجود تھی۔ اسرائیلی طیاروں نے اس کے علاوہ جنوبی غزہ کے علاقے الصبیرہ میں بھی ایسی بھاری مشینری کو نشانہ بنایا، جو ایک مقامی خاندان کی ملکیت تھی۔

اس صہیونی حملے پر ردعمل دیتے ہوئے اسلامی مزاحمتی تحریک حما س نے کہا کہ اسرائیل کا بلدیاتی دفاتر کو نشانہ بنانا اور امدادی مشینری پر حملہ غزہ میں نسل کشی کی جنگ میں اضافے اور تباہی کا ایک اور مظہر ہے، نیز یہ اسرائیلی بد عہدی کا بھی واضح مظہر ہے۔ حماس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ کارروائی اسرائیل کی فاشسٹ پالیسی کا تسلسل ہے، جس کا مقصد غزہ کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنا اور وہاں کی شہری زندگی کی بنیادوں کو تباہ کرنا ہے۔ اسرائیل کا یہ مجرمانہ طرزِ عمل اخلاقی اصولوں سے عاری ہے اور اس کی حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہے۔

غزہ میں زندگی کے وسائل اور شہری سہولتوں کی منظم تباہی کے جرائم ہمارے عوام کو نقل مکانی کے منصوبوں کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کر سکیں گے، نہ ہی یہ ہمارے لوگوں کو اپنی زمین کے ساتھ وابستگی سے منحرف کر سکیں گے۔ ہمارے عوام اور ان کے بچے مزاحمت کے ساتھ جارحیت کا مقابلہ کرتے رہیں گے اور ہم اپنے جائز حقوق، آزادی اور خود مختاری کے حصول کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔” غزہ میں شہری دفاع کی جنرل ڈائریکٹوریٹ نے اسرائیل کی طرف سے اس مشینری کی تباہی کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ مشینری بلدیات کے تعاون سے انسانی امداد کے کاموں میں استعمال ہو رہی تھی، جیسے کہ ملبہ ہٹانا، زخمیوں کو بچانا اور شہدا کی لاشیں نکالنا۔ شہری دفاع کے سپلائی اور سامان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد المغیر نے کہا کہ یہ کھدائی کرنے والی 9 مشینیں قطر اور مصر کی کمیٹی کے ذریعے آخری جنگ بندی کے دوران دو قسطوں میں غزہ بھیجی گئی تھیں۔ شہری دفاع کی ٹیموں نے ان کو شہدا کی لاشیں نکالنے اور غزہ کے رفح اور خان یونس کے علاقوں میں سڑکوں کو کھولنے کے لیے استعمال کیا تاکہ فوری امداد کی فراہمی کو بہتر بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر المغیر نے یہ بھی بتایا کہ شمالی غزہ کی بلدیات نے ان مشینوں کا استعمال پناہ گزینوں کے لیے کیمپ بنانے کے لیے زمین کی صفائی میں کیا اور کمال عدوان اسپتال کے قریب اجتماعی قبروں سے شہدا کی لاشیں نکالنے کے لیے بھی ان مشینوں کا استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر المغیر نے اس مشینری کو نشانہ بنانے پر شدید تنقید کی، جو صرف خدماتی اور انسانی کاموں کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ قطر اور مصر کی کمیٹی کے ساتھ پہلے یہ طے پایا تھا کہ یہ مشینیں جبالیہ النزل کی بلدیہ کے پاس رکھی جائیں گی اور انہیں اس مقام کی جغرافیائی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیلی فوج نے اس علاقے کو نہ تو خالی کرنے کا حکم دیا تھا اور نہ ہی اسے کوئی فوجی خطرہ یا خطرناک علاقہ قرار دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا بلدیات کی مشینوں کو نشانہ بنانا 1977 ء کے اضافی پروٹوکول کی صریحا خلاف ورزی ہے، جو کہ انسانی امدادی سامان اور شہری دفاع کی مشینری کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔ فلسطینی مفقودین اور قید میں غائب افراد کے مرکز نے اسرائیلی فوج کی جانب سے بھاری مشینری کی تباہی کی شدید مذمت کی ہے۔ مرکز نے کہا کہ یہ جان بوجھ کر کیا جانے والا حملہ ہے، حالانکہ مقامی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بار بار مطالبات کیے گئے تھے کہ غزہ کی محصورہ سرزمین میں یہ مشینری داخل کی جائے تاکہ ملبے کے نیچے دبی بچوں کی لاشیں نکالی جا سکیں۔ باقی بچ جانے والی مشینری کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کا مقصد اپنے جرائم کے آثار کو چھپانا اور ثبوت مٹانا ہے۔ یہ کارروائی غزہ میں ہزاروں غائب افراد، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں، کے ساتھ کیے جانے والے جرائم کا تسلسل ہے۔ ان افراد کی لاشیں کئی ہفتوں سے ملبے میں دبی ہوئی ہیں اور ان کے اہل خانہ کو نہ تو دفنانے کا موقع مل سکا ہے اور نہ ہی ان کے مقدر کا پتہ چل سکا ہے۔

امدادی آلات کو نشانہ بنانا بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ایک مکمل جنگی جرم ہے۔ یہ اسرائیلی قابض افواج کے غزہ میں شہریوں کے خلاف جرائم اور خلاف ورزیوں کے طویل ریکارڈ میں ایک اور اضافہ ہے۔ مرکز نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل پر دبا ڈالنا ضروری ہے تاکہ بغیر کسی تاخیر کے امدادی مشینری اور ماہر امدادی ٹیموں کے لیے محفوظ راستے کھولے جائیں تاکہ وہ شہدا کی لاشوں کو نکالنے اور متاثرین کی شناخت کے عمل میں حصہ لے سکیں۔