غزہ کے فلسطینیوں پر جو قیامت پچھلے دو برسوں سے ڈھائی گئی ہے، اس کی بے پناہ تباہ کاری اور شدید جانی ومالی نقصانات سب کے سامنے ہیں۔ جدید تاریخ میں ایسی بہیمیت، ظلم اور سفاکی کی کوئی اور مثال ہم نے تو نہیں دیکھی۔
بوسنیا میں بھی ظلم ڈھایا گیا تھا، مگر وہاں ظالم اتنا طاقتور نہیں تھا۔ ویسے بھی تب سوشل میڈیا نہیں تھا، مین سٹریم میڈیا کی بھی رسائی نہیں تھی۔ غزہ میں تو ٹی وی چینلز، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا ہر ایک نے سب کچھ کھول کر دکھایا، پھر بھی اسرائیل کو دنیا ظلم کرنے سے نہ روک سکی۔ جو مزاحمت ہوئی وہ غزہ کے فلسطینیوں نے کی، حماس کے حریت پسندوں نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس پر بھی بہت بڑی آزمائش آئی۔ ان کی پوری قیادت شہید ہوگئی، اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ گیا، مجاہدین کی بڑی تعداد نے اپنے لہو کے چراغ جلائے، ان کے ٹنل نیٹ ورک کو شدید نقصان پہنچا، اسلحہ بھی تباہ ہوا۔
اب خبریں آ رہی ہیں کہ حماس کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے پاس اپنے لوگوں کو دینے کے پیسے تک نہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق، ”تنظیم اپنے فائٹرز اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کر پا رہی۔ فائٹرز کی ماہانہ تنخواہیں مبینہ طور پر 200 سے 300 امریکی ڈالر تھیں، فائٹ فورس کی تنخواہیں مکمل طور پر معطل ہو چکی ہیں، جب کہ سینئر عہدیداروں اور کم تعداد میں خوش قسمت سرکاری ملازمین کو رمضان کے دوران آدھی تنخواہیں ہی دی گئیں۔ جنگ کی صورتحال اسرائیلی کارروائیوں اور امدادی ترسیلات پر پابندیوں کی وجہ سے حماس کے مالیاتی ذرائع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اہم مالیاتی ایجنٹ جیسے سعید احمد الخضری کو ہدف بنائے جانے سے بھی حماس کی مالی ترسیلات میں رکاوٹ آ گئی ہے۔”
بتایا جا رہا ہے کہ جنگ سے پہلے حماس کو قطر سے ہر ماہ 15ملین ڈالر کی مالی امداد حاصل ہوتی تھی اور تنظیم کے پاس تقریباً 500ملین ڈالر کے فارن ریزرو ہیں جو ترکی میں رکھے گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں ان ریزرو کو عملی طور پر استعمال کرنا ناممکن ہے۔
یہ مالی مشکلات کی خبریں اپنی جگہ درست ہوں گی، ظاہر ہے حماس اس وقت مشکل میں ہے، لیکن حماس کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے بعض مغربی اخبارات اور اسرائیلی میڈیا میں جو رپورٹس شائع ہو رہی ہیں، ان کے بغور مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سچائی کا عنصر بہت کم اور وش فل تھنکنگ اور ذاتی خواہشات کا غلبہ ہے۔ دراصل ابھی تک بہت سے مغربی رپورٹر اور لکھنے والے حماس اور اس کے نظریاتی ڈھانچے اور فلسطینی عوام میں موجود سپورٹ کو نہیں سمجھ سکے۔ وہ حماس کو کوئی عام گوریلا یا جنگجو تنظیم تصور کرتے ہیں، حالانکہ اس کی اصل قوت اس کا نظریہ اور اس کے نظریاتی رہنما اور کارکن ہیں۔
چند سال قبل مجھے مصر جانے کا موقعہ ملا، اس سفر میں باقاعدہ پلاننگ کر کے قاہرہ میں الاخوان المسلمون کے دفاتر کا وزٹ کیا اور ان کے اہم رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ اخوان کے تب مرشد عام مہدی عاکف تھے۔ یاد رہے کہ الاخوان المسلمون کے سیٹ اپ میں دنیا بھر کے لئے ایک ہی مرشد عام (امیر) ہوتا ہے۔ مہدی عاکف صاحب کا انٹرویو کیا اور ڈاکٹر عصام الریان، عزت ابراہیم اور دیگر سے بھی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر مرسی تب رکن پارلیمنٹ تھے، ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اخوان کے رہنمائوں سے ملاقاتوں اور گفتگو کے بعد ہی اندازہ ہوا کہ مڈل ایسٹ میں مسلم نظریاتی تحریکوں نے کس طرح شدید ترین جبر اور استبداد کے باوجود خود کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ حماس پر اخوان اور سید قطب کی فکر کے گہرے اثرات ہیں۔
مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب قاہرہ کے ایک معروف آئی سرجن سے ملاقات ہوئی، معلوم ہوا کہ پروفیسر کی سطح کے وہ ڈاکٹر صاحب ہفتے میں صرف تین دن پریکٹس کرتے ہیں اور باقی تین دن وہ دینی دعوت کا کام کرتے ہیں۔ یہ اخوان کے بیشتر کارکنوں اور حامیوں کی روٹین تھی کہ وہ اپنے روزمرہ زندگی میں سے باقاعدہ وقت نکال کر دعوت کا کام کرتے تھے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب ڈاکٹر مرسی مصر کے صدر بن گئے، تب ہمارے ایک صحافی دوست کو غزہ جانے کا موقع ملا۔ ان دنوں مرسی حکومت کی ہدایت پر مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کھول دی گئی تھی۔ صحافی دوست کئی دن تک غزہ رہے اور وہ فلسطینی عوام اور حماس کے کارکنوں اور حامیوں کی غیر معمولی جدوجہد اور عزم وہمت سے بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے بعد میں پاکستان واپسی پر تفصیل سے ہم سے وہ باتیں شیئر کیں۔ حماس کے ٹنل نیٹ ورک اور خاص کر القسام بریگیڈ کے حوالے سے دلچسپ معلومات فراہم کیں۔ بتانے لگے کہ انہوں نے اپنے میزبان حماس کے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ القسام کے مجاہدین سے ملنا چاہتے ہیں۔ میزبانوں نے معذرت کر لی اور بتایا کہ یہ نیٹ ورک مکمل طور پر خفیہ ہے اور خود حماس کے بیشتر لوگ القسام کے کارکنوں سے بے خبر ہیں۔
پھر بعد میں انہیں پتہ چلا کہ زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو مختلف روزمرہ کے کام کاج اور ملازمت وغیرہ کرتے ہیں، کوئی قصائی ہے، کوئی کارپینٹر، ہوٹل چلا رہا ہے یا کوئی اور چھوٹی موٹی جاب۔ درحقیقت یہ سب القسام کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں اور جب ضرورت پڑے، تب ان کی فائٹر فورس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسے اسٹرکچر والی تنظیم کو کون ختم کر سکتا ہے؟
اسرائیل غزہ کی مکمل تباہی اور بے شمار اموات اور گرفتاریوں کرنے کے باوجود حماس کے نیٹ ورک میں سرایت نہیں کر پایا۔ اس کی بڑی وجہ حماس کے لوگوں کی نظریاتی وابستگی اور اپنی جانوں کا رب سے سودا کر لینا ہے۔ وہ فنا فی الجہاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی ترغیب اور کوششیں بھی حماس کے منصوبوں کو بے نقاب نہیں کر سکیں۔
اسرائیل کی اتنی بڑی فوج اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی موجودگی کے باوجود ڈیڑھ پونے دو برسوں سے اسرائیلی یرغمالیوں کو اپنی تحویل میں رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوجی بھوکے بھیڑیوں کی طرح انہیں ڈھونڈتے رہے، مگر بری طرح ناکام رہے۔
حماس کے خلاف آج کل غزہ میں بغاوت اور عوامی مظاہرے کرانے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے بھی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب بھی لاحاصل کوشش ہے۔ حماس کے مخالف ویسٹ بنک میں رہنے والے فلسطینی صحافی کی گفتگو مجھے یاد آئی، جس سے کچھ دن پہلے اسی حوالے سے پوچھا گیا۔ اس کا بے ساختہ جواب تھا، ”حماس سے لوگ ناخوش ہو سکتے ہیں، مگر حماس نے اپنی پوری قیادت لٹا دی، اپنے کارکن، رہنما شہید کرا دیے اور وہ قربانیوں میں کسی عام فلسطینی سے ہرگز پیچھے نہیں رہے۔ اس لیے کوئی بھی فلسطینی حماس کو شکوہ یا طعنہ نہیں دے سکتا۔ اسماعیل ہنیہ شہید نے پہلے اپنا پورا خاندان لٹا دیا اور پھر خود بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ اب حماس کی قیادت کو کیا طعنہ دیا جا سکتا ہے۔”
جہاں تک مالی مسائل کا تعلق ہے، یہ اپنی جگہ قائم ہیں، مگر حماس اپنے معاملات غیر روایتی طریقے سے چلاتی ہے، روایتی بنکنگ چینلز ان کے لئے نہیں۔ ان کی فنڈنگ کے اپنے ذرائع ہیں اور وہ کم سے کم پیسوں میں بھی گزارا کر سکتے ہیں۔ صرف مالیاتی مسائل کی وجہ سے حماس ختم نہیں ہو سکتی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی محاذ سے یہ مصلحتاً کچھ عرصے کے لئے پیچھے ہٹ جائیں، لو پروفائل میں چلے جائیں، مگر جب تک فلسطینی عوام کے دل حماس کے ساتھ دھڑکتے ہیں، تب تک یہ تنظیم بھی موجود ہے۔ اخباری خبروں، یک رخے تجزیوں اور متعصبانہ ٹی وی رپورٹوں سے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔