حج: عشق کا سفر جو نہ ہو سکا

”مکہ مدینہ” ہر کلمہ گو مسلمان کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان شعور کی زندگی میں قدم رکھتے ہی مکہ مدینہ سے ایک والہانہ رومانوی عشق شروع کر دیتا ہے۔ بڑی بوڑھیاں جب کسی سے خوش ہوں تو اسے مکے مدینے کی زیارت کی توفیق ملنے کی دعائیں دیتی ہیں۔ نعتیں اور مدحیہ کلام بھی حرمین شریفین جانے کے ذوق و شوق میں اضافہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کے اپنے مقدس ترین مقامات سے اس عاشقانہ تعلق میں دن بدن تیزی ہی آتی جا رہی ہے۔ یوں تو پاسبان عقل کے ساتھ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔

حرمین شریفین کا سفر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ عشق و محبت اور مہر و وفا کا سفر ہوتا ہے۔ جس طرح عاشق اپنے محبوب کی طلب میں اس طرح مگن ہوتا ہے کہ اسے اپنے آپ کی خبر ہی نہیں رہتی، اسی طرح حج کے سفر میں بھی ہوتا ہے کہ انسان دیوانہ وار صرف دو سفید چادروں میں ملبوس ہو کر ”لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ” کا ترانہ پڑھتے ہوئے عشقِ حقیقی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ربّ کی تلاشش میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ یہی عاشقانہ ادائیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ ہم بھی عاشق ہیں، ہمارا بھی یہی حال تھا۔ ہم بھی ربّ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو ہمارے گھر میں مکے مدینے جانے کی باتیں ہوتی تھیں۔ ہماری نانی ماں ہر ہفتے ہمارے گھر آیا کرتی تھیں، اور ایک رات رہ کر اگلے دن شام کو واپس جایا کرتیں تھیں۔ رات کو دیر تک ہم سب بچوں کو مکہ مدینہ کی باتیں سنایا کرتی تھیں۔ گزشتہ ہفتے جو جو باتیں سنائی اور بتائی ہوتی تھیں، ان کا امتحان بھی لیا کرتیں تھیں۔ جو بچہ صحیح صحیح جواب دیتا تو اسے مکہ مدینہ جانے کی دعائیں دیتی تھیں۔ ایک دفعہ نانی اماںنے حضرت ابراھیم کا واقعہ سنایا۔ تعمیر کعبہ کا قصہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ یہ بھی بتایا کہ حج کیا ہوتا ہے؟ حج کیسے کیا جاتا ہے؟ حج کون کرتا ہے؟ حج کس پر کب فرض ہوتا ہے؟نانی اماں نے اس رات اسی موضوع پر پوری گفتگو کی تھی۔ اگلے ہفتے جب نانی اماں آئیں تو آتے ہی پوچھا: ”بچو! بتائو! پچھلے ہفتے میں نے کیا کیا واقعات سنائے تھے؟” میں نے جلدی سے ہاتھ کھڑا کر دیا کہ نانی اماں! میں بتاؤں گا۔ مجھے یاد ہے، تھوڑی دیر کے بعد نانی اماں نے کہا: ”منا جی! بآواز بلند سناؤ۔” تو میں اپنے الفاظ میں حضرت ابراھیم اور بِنائے کعبہ کا واقعہ سنانے لگا۔ میری باتیں سن کر نانی اماں بہت خوش ہوئیں اور مجھے مکہ مدینہ جانے کی دعائیں دینے لگیں۔

لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے حق میں نانی اماں کی وہ سب دعائیں قبول کر لی تھیں۔ یہ 2003ء کی بات ہے کہ میں ایک حادثے میں شدید زخمی ہوگیا۔ دورانِ بیماری میں نے منت مانی کہ اگر اللہ نے مجھے مکمل صحت دی تو عمرہ ادا کروں گا، چنانچہ دو چار ماہ کے بعد صحت یاب ہوگیا تو عمرے کی تیاری شروع کر دی۔ وہ دن آہی گیا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے حرمین روانہ ہوگیا۔2005ء میں جب میں نے عمرہ کی نیت سے سفر کیا تھا تو بیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی ڈھیر ساری دعائیں مانگی تھیں۔ ان دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے فیملی کے ساتھ حج کرنے کی بھی توفیق دیں۔ دعا کی قبولیت کے بیسیوں مقامات میں سے ایک مقام خانہ کعبہ پر پہلی نظر بھی ہے۔ میں نے پہلی نظر کے وقت جتنی دعائیں مانگی تھیں، ایک ایک کر کے وہ سب پوری ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ سن 2018ء میں فیملی کے ساتھ حج کرنے کی دعا بھی قبول ہوگئی۔ یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے، اور اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں۔ انسان کو دعاؤں کے ساتھ ساتھ اسباب بھی اختیار کرنے چاہییں، چنانچہ ہم نے حج پر جانے کی منصوبہ بندی بھی شروع کر دی۔ دعا بھی کرتے رہے اور دوا بھی۔ جب بلاوا آتا ہے تو پھر اسباب بھی بننا شروع ہو جاتے ہیں، لہٰذا اسباب بنتے چلے گئے۔ یوں ہم نے عمرے کے 13سال بعد فیملی کے ساتھ حج بھی ادا کیا۔ الحمدللہ! ثم الحمدللہ۔

امسال بھی ہم نے حج کے مبارک سفر پر جانا تھا مکمل تیاریاں تھیں لیکن حکومت کی نااہلی اور مبینہ کرپشن کی وجہ سے مجھے سمیت 67ہزار عازمین مبارک سفر سے رہ گئے۔ آپ اندازہ کیجیے، اس مہنگائی کے دور میں لوگ کس طرح پائی پائی جوڑ کر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بے شک حج کے لیے استطاعت شرط ہے تاہم حج جیسی عاشقانہ عبادت کے لیے اہل دل اپنی استطاعت سے بڑھ کر بھی کوشش کرتے ہیں، اپنی ضروریات کو آگے پیچھے کرتے ہیں، لیکن جب یہ سب کرنے کے بعد ان کو پتا چلتا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی کے باعث وہ اس مقدس سفر پر نہیں جا سکتے تو ان پر جو بیتتی ہے، وہ وہی جانتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب بھی کوشش کرے اور سعودی حکام سے بات کر کے عازمین حج کی محرومی کا ازالہ کرے۔