رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل میں دسمبر 2022ء میں وزیراعظم نیتن یاہو کی قیادت میں تشکیل پانے والی 37ویں حکومت چھ جماعتی الائنس پر مشتمل ہے۔ اس اتحاد میں شامل تمام جماعتیں دائیں بازو کی انتہاپسند یہودی فکر وعقیدے کی حامل ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی اراضی ایک خدائی وعدے کے مطابق یہودیوں کو دی گئی ہے اور یہاں رہنے والے عربوں کا اس سرزمین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ ان لوگوں کی جبری بے دخلی کے منصوبے کی تکمیل کے لئے ہر وہ عمل اور اقدام جائز ہے جس سے یہ لوگ تنگ آکر نکلنے پر مجبور ہوں۔
اس عقیدے کا عملی مظہر ہم غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اکیاون ہزار فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں اور ایک لاکھ سترہ ہزار افراد زخمی ہیں۔ غزہ کی پندرہ لاکھ آبادی بے گھر ہوکر پناہ گزینی کی زندگی گزار رہی ہے۔اسرائیل کی حالیہ حکومتی کابینہ میں غزہ نسل کشی کے حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم وزیر بتسلئیل سموتریش ہے۔ اسرائیل کا بدنام زمانہ وزیر خزانہ مغربی کنارے میں فلسطین کی ایک ایسی غیر قانونی یہودی کالونی میں رہائش پذیر ہے جو بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے۔ جبکہ اس نے ایسی زمین پر گھر تعمیر کروایا ہے جو عالمی اور علاقائی قوانین کے مطابق بھی غیر قانونی ہے۔ بتسلئیل مغربی کنارے کے نابلس کے جنوب میں واقع کدومیم نامی اس یہودی آباد کار کالونی میں ہے۔ جس کی بنیاد 1974ء میں اسرائیل کی انتہا پسند یہودی تنظیموںنے سلطنت عثمانیہ کے ریلوے اسٹیشن سبسطیہ کی جگہ پر رکھی تھی۔ جسے اس وقت کی بائیں بازو کی اسرائیلی حکومت نے غیر قانونی قرار دیا تھا ۔2018ء میں اسرائیلی حکومت نے اس قانون کو تبدیل کیا اور اس میں ترمیم کرکے اسے لیگلائز کرنے کی کوشش کی ۔ 2017ء میں اسرائیلی جریدے ٹائم آف اسرائیل نے اس اراضی کو فلسطینیوں کی خصوصی ملکیت والی زمین قرار دیا ۔ لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی متشدد حکومت نے اس سے قبل ہی سیٹلمنٹ لا ء کے نام سے ایک قانون پاس کرکے اس کے ذریعے بہت سی دیگر فلسطینی اراضی سمیت اس کو بھی قانونی قراردے دیا اور یوں یہاں یہودی کالونی کو برقرار رکھا۔
غیر قانونی زمین پر گھر تعمیر کرنے اور وزیر بننے کے بعد اس پر قائم رہنے کے پیچھے وہ نظریہ ہے جس پر بتسلئیل اور اس جیسے دیگر انتہا پسند یہودی وزرا قائم ہیں کہ فلسطینیوں کی بے دخلی یہاں سے واجب ہے۔ 2021 ء میں پارلیمنٹ کی رکنیت کا حلف اٹھاتے وقت انتہا پسند بتسلئیل نے اس اراضی سے فلسطینیوں کو ہر صورت بے دخل کرنے کی قسم کھائی ، ایک عرب رکن پارلیمان نے اعتراض اٹھایا ۔ جواب میں انتہا پسند بتسلئیل نے بتایا کہ تمہارا وجود یہاں ایک غلطی ہے۔ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن غوریوں نے عربوں کو مکمل طور پر نکالنے کا کام چھوڑ کر مشن کو ادھورا چھوڑا تھا اور وہ اس ادھورے مشن کو پورا کریں گے۔
بتسلئیل سموتریش یوکرینی یہودی خاندان میں1980ء میں پیدا ہواہے۔ اس کے خاندان کا نام سموتریش یوکراین میں ایک مشہور دریا سموتریش کے نام پر رکھا گیا ہے۔
بتسلئیل کا باپ یوکراین سے نقل مکانی کرکے اسرائیل پہنچنے کے بعد مقبوضہ گولان ہائٹس کے قریب بننے والی یہودی کالونی میں رہنے لگا تھا۔ بتسلئیل نام کا یہودی مذہب میں ایک قدیم پس منظر ہے۔ بتسلئیل کا والد یہودی مذہبی رہنما (ربی)تھا اور وہ دینی یہودیت نامی تنظیم کے سربراہ یہودی ربی تسوی یہودا کوک کا نظریاتی فالور تھا۔
بتسل ئیل کو اس کے والد نے ہراف سینٹر نامی یہودی تعلیمی ادارے میں داخل کرایاتھا جس کی بنیاد 1924ء میں مشہور انتہا پسند یہودی ربی اسحاق کوک نے رکھی تھی اور اس ادارے نے اسرائیلی انتہا پسندی کے نمایاں افراد کو جنم دیا۔ اس ادارے کو اسرائیل میں ام المدارس یعنی یہودی انتہا پسند مدارس کی ماں کا نام دیا جاتا ہے۔
1967ء کی جنگ کے بعد جب اسرائیل کو کچھ مقبوضہ زمینوں سے انخلا کرنا پڑا تو اس سے اسرائیل میں ایک نظریاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ اسرائیل کے انتہا پسند گروپس نمایاں ہوگئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1977 ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ بائیں بازوں کی جماعتوں کو شکست ہوئی اور دائیں بازو کی جماعتیں منظر عام پر اگئیں۔
بتسلئیل سموتریش کی سرگرمیوں میں 2000 ء کے بعد اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ 2005 ء میں سموتریش کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ انتہا پسند یہودیوں کے فلسطینیوں کی بے دخلی کے لئے جاری مظاہروں میں پیش پیش تھا۔ اس دوران اس کے گھر سے 700لیٹر پیٹرول بھی برآمد کیا گیا تھا جسے اس نے فلسطینیوں کی گاڑیوں اور گھروں کو جلانے کے لئے رکھا تھا۔ اس پر اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔2006 ء میں بتسلئیل نے ریفاعیم نامی ایک گروپ بنالیا جس کا کام مغربی کنارے میں یہودی کالونیوں کی تعمیر تھا۔ بتسلئیل اسرائیل میں متعدد انتہاپسند یہودی اسکولوں کی تعمیر کرچکا ہے اور وہ فلسطین کی تمام اراضی کو خدا کا تحفہ سمجھ کر اسرائیل کے قبضے میں لانے کے لئے سرگرم ہے۔
عبرانی زبان میں یہودی مذہبی مدارس کو یشیفوت کہاجاتا ہے۔ یشیفا عبرانی لفظ ہے جس کے معنی بیٹھنے کے ہوتے ہیں۔ یشیفات وہ مدارس کہلاتے ہیں جہاں یہودی بچے زندگیاں وقف کرکے بیٹھتے ہیں اور تورات کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اسرائیلی شہر بنی براک ان مدارس کے حوالے سے مشہور ہے جہاں پچاس ہزار سے زائد طلبہ یشیفوت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور یہی طلبہ فارغ ہونے کے بعد سفارتی سیکٹر، فورسز اور سیاست میں آتے ہیں۔ عبرانی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فورسز اس وقت مکمل طور پر انہیں یشیفوت کے زیر تسلط ہے۔