رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل نے 17 ستمبر کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تاریخی دفاعی معاہدے پر سرکاری سطح پر اب تک کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا۔ عبرانی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکومت اور دفاعی ادارے اس معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ کے دیگر عرب ممالک کی سرگرمیوں اور بین الاقوامی سفارتی تعلقات کو بڑی توجہ کے ساتھ مانیٹر کررہے ہیں۔ خاص طور پر عرب ممالک کی جانب سے پاکستان کے سے دفاعی حوالے سے رابطوں پر اسرائیلی اداروں کی کڑی نظر ہے۔
اسرائیل کی جانب سے پاک سعودی معاہدے پر رسمی طور پر اب تک تو خاموشی ہی ہے لیکن اسے اسرائیلی ادارے بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ اسرائیلی تشویش میں مزید شدت اُس وقت آئی ہے جب 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خطاب کے دوران 77 ممالک نے واک آوٹ کیا۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 77 کے بائیکاٹ کے بعد صرف 16 ممالک کے نمائندہ وفود باقی رہ گئے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی چینل 12 نے بتایا کہ دنیا نے اسرائیل کے منہ پر تھوک دیا۔ عبرانی چینل کے مطابق اس اقدام نے نیتن یاہو کو احساس دلایا ہے کہ اس کی غلط پالیسیوں نے اسرائیل کو کس قدر پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر گیارہ یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد نیتن یاہو کے خطاب کے اتنے بڑے پیمانے پر بائیکاٹ نے عالمی سطح پر اسرائیل کی تنہائی اور مسترد ریاست ہونے کا تصور گہرا کردیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے جن علاقائی چیلنجوں میں اضافہ ہورہا ہے اُن میں ایک اہم چیلنج پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ ہے جس سے اسرائیلی ادارے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
اسرائیلی اُمور پر کام کرنے والے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایک علاقائی طور پر کشیدہ لمحے میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے پر دستخط نے اسرائیلی فیصلہ ساز حلقوں کے اندر ایک نئی اور وسیع بحث کو بھڑکا دیا ہے اور فوری طور پر اس کا موازنہ نیٹو معاہدے سے کیا جانے لگا ہے۔ یہ معاہدہ جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی ایک فریق پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا، محض روایتی حفاظتی انتظامات سے آگے بڑھ کر ایک طرح کا ’اسلامی نیٹو‘ دکھائی دیتا ہے۔ اس معاہدے میں دوہرے پیغامات پوشیدہ تھے۔ خلیجی خطے کے اندرونی حلقوں کو اطمینان دلانا اور امریکی تحفظ کے متبادل تلاش کرنا اور اسی وقت اسرائیل اور بھارت دونوں کو باز رکھنے کے اشارے دینا جبکہ ریاض اس اقدام پر اصرار کرتا ہے کہ یہ صرف دفاعی نوعیت کا ہے، تل ابیب میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ قدم مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے دروازے کھول سکتا ہے اور خطے میں طاقت کے نقشے کو ازسرِ نو ترتیب دے سکتا ہے۔ اسرائیلی ویب سائٹ برائے بین الاقوامی امور نے اس دفاعی معاہدے کو اسرائیل کے قطر پر اس ناکام حملے سے جوڑا جس کا مقصد حماس کے رہنماو¿ں کو نشانہ بنانا تھا، حالانکہ یہی معاہدہ سعودی عرب گزشتہ برسوں میں امریکا کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
عبرانی ویب سائٹ نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ کوششیں بندگلی میں جا پہنچی تھیں، تاہم یہ اسٹریٹجک معاہدہ جس کی رو سے کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا، ان کے عشروں پرانے سلامتی اور عسکری تعاون کو مزید مضبوط بناتا ہے۔ یہ واضح طور پر ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی پہلوو¿ں کو شامل کرتا ہے جبکہ یہ معاہدہ ریاض کی طرف سے دوحہ پر تل ابیب کے حملے کے انکار کا اظہار تھا۔ نیز اس کی اہم بات یہ ہے کہ یہ اسلام آباد کے لیے یہ چار ماہ قبل اپنے ازلی دشمن نئی دہلی کے ساتھ مختصر جھڑپ کے بعد آیاہے جس سے اس معاہدے کو سعودی عرب کی جانب سے بھارت جو پاکستان کا حریف ہے اور دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔یقینا سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کے بھارت کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک اور عسکری تعلقات ہیں، تاہم بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان راندیرجسوال نے اعلان کیا کہ ان کا ملک اس معاہدے کے اپنے سلامتی اور علاقائی استحکام پر اثرات کا جائزہ لے رہا ہے، جیسا کہ اخبار ہارٹز نے رپورٹ کیا۔
دوسری جانب عبرانی جریدے یدیعوت احرونوت نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ضرورت پڑنے پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں سمیت سعودی عرب کا دفاع کرے گا۔ یہ دراصل اسرائیل کے لیے سعودی عرب کا ایک اشارہ ہے خاص طور پر اس پس منظر میں کہ دونوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اخبار نے اس معاہدے کو خفت میں ڈوبا طنزیہ عنوان دیتے ہوئے ”ریاض کے پیسے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت سے لیس بڑی فوج“ کا امتزاج قرار دیا۔ عبرانی جریدے نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ اس میں سعودی عرب کی جانب سے کسی ادائیگی کا ذکر نہیں، کم از کم سرکاری طور پر تو نہیں۔
عبری جریدے نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ یہ معاہدہ دیگر خلیجی ممالک تک پھیل سکتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ خلیجی ریاستوں کا امریکا کی فراہم کردہ سلامتی پر اعتماد کم ہورہا ہے۔ عبرانی جریدے نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے اس معاہدے پر ابھی تک سرکاری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا، لیکن وہ اس سعودیہ پاکستانی اتحاد کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے اور یہ معاملہ اسرائیل کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔ اسرائیل کے عسکری امور کے نامی نگار مایر غلبوع نے اسرائیلی فوجی ادارے اور انٹیلی جنس کے متعدد سابقہ سینئر عہدیداروں کی جانب سے ابھرتے ہوئے سعودی پاکستانی اتحاد کے مضمرات پر دیے گئے انتباہات کو نقل کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ صورتحال اسرائیل کے لیے اس امکان کی تیاری کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے وارہیڈز سعودی عرب منتقل کرے یا پھر اسے وہ علم اور ذرائع فراہم کرے جو اسے قلیل مدت میں اپنی ایٹمی صلاحیتیں تیار کرنے کے قابل بنا دیں۔ درست ہے کہ سعودی ایٹمی صلاحیت اسرائیل کے لیے اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا کہ ایران کی ممکنہ صلاحیت، لیکن سعودی عرب کا ایٹمی طاقت بن جانا اسرائیل کے لیے کئی خدشات کو جنم دیتا ہے۔
مصنف نے اس معاہدے سے متعلق اسرائیلی تشویش کی چند علامات بیان کیں۔ ان کے مطابق یہ امکان کہ ریاض میں موجودہ سیاسی صورتحال تبدیل ہوجائے اور اچانک اسرائیل کی مخالف بن جائے، جیسا کہ ماضی میں خطے کے دیگر ممالک میں ہوا، جن میں ایران 1979ء اور مصر 2011ء شامل ہیں۔ دوسرا خدشہ یہ بھی ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ریاض کی موجودہ حکومت کے مفادات ہمیشہ اسرائیل کے مفادات سے ہم آہنگ رہیں گے۔ تیسرا خدشہ یہ ہے کہ غالب خیال یہ ہے کہ سعودی ایٹمی اسلحہ سازی خطے کے دیگر ممالک، جیسے مصر، متحدہ عرب امارات اور ترکی کو بھی اسی طرح کی صلاحیتیں حاصل کرنے پر اُکسائے گی اور یوں پورا مشرقِ وسطیٰ ایک ایٹمی بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا جس سے اسرائیل کی پڑوس کو غیرمسلح رکھنے کا منصوبہ خاک میں مل جائے گا۔ اس بات کے باوجود کہ سعودی عرب اور پاکستان کا قریبی تعلق ایک انتہائی اہم اسٹریٹجک معاملہ دکھائی دیتا ہے مگر اسرائیل میں اسے گہرائی سے نہیں سمجھا گیا، لہٰذا اسرائیل کے لیے لازم ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک امکان کی تیاری کرے اور اسے سنجیدگی سے مدنظر رکھے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس معاہدے سے متعلق اسرائیلی تشویش بالکل جائز ہے۔
