دنیا کی غذائی باسکٹ بھوک کا شکار

رپورٹ: علی ہلال
افریقہ کے عرب اسلامی ملک سوڈان کو غذائی باسکٹ کہاجاتا ہے۔ سوڈان کی مٹی زرخیزی میں بے مثال ہے۔ برطانوی دور میں 1925ء میں سوڈان کے علاقے دریائے نیل ازرق اور ابیض کے درمیان واقع جزیرے میں ایک زرعی پروجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
25 لاکھ ایکڑ پر مشتمل یہ دنیا کا سب سے بڑا زرعی منصوبہ ہے۔ اپنے عروج کے دور میں اس نے سالانہ پانچ لاکھ ٹن سے زیاد اعلیٰ معیار کی کپاس پیدا کی، اس کے ساتھ ساتھ اجناس، تیل دار بیج، مونگ پھلی، گندم، تل، جوار، باجرا اور سبزیاں بھی۔ یہ سب مل کر اُس خواب کی عکاسی کرتے ہیں کہ سوڈان افریقہ اور دنیا کی غذائی ٹوکری بنے۔ سوڈان کی ثروت اور وسائل صرف زراعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس ملک کو قدرت نے مال مویشیوں کی فراوانی سے بھی مالامال کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار (2022ء) کے مطابق ملک میں: 3 کروڑ 20 لاکھ گائے 4 کروڑ 10 لاکھ بھیڑیں 3  کروڑ 20 لاکھ بکریاں اور تقریباً 50 لاکھ اونٹ ہیں۔یعنی کل 11 کروڑ سے زیادہ جانور۔ دیگر عالمی اداروں نے بھی تقریباً یہی اندازہ لگایا ہے۔ یوں سوڈان ایتھوپیا اور نائیجیریا کے ساتھ افریقہ کے تین بڑے مویشی مالدار ممالک میں شامل ہے۔
سوڈان دنیا میں عربی گم (گوندکتیرا) کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے جو اس عالمی پیداوار کا تقریباً 80 فیصد مہیا کرتا ہے۔ یہ فصل خوراک، ادویات اور سافٹ ڈرنکس کی صنعت میں استعمال ہوتی ہے۔تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق اس اسٹریٹجک وسیلے کی بڑی مقدار تنازعہ زدہ علاقوں سے اسمگل ہوکر سرحد پار جاتی ہے تاکہ جنگ کے لیے فنڈز مہیا کیے جاسکیں، بالخصوص اس وقت سوڈان کی سرکاری آرمی کے مقابلے میں سرگرم مسلح ملیشیا ریپڈسپورٹ فورسز اس کو اپنے جنگی اخراجات کے لئے کام میں لاتی ہیں۔ وزارت معدنیات سوڈان اور امریکی ادارہ برائے توانائی کی معلومات کے مطابق سوڈان کے پاس ابھی تک بڑی مقدار میں غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل موجود ہیں۔تقریباً 15 لاکھ ٹن یورینیم (جو دنیا میں تیسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے)سونا: سوڈان دنیا میں 13ویں اور افریقہ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ چاندی کے ذخائرتقریباً پندرہ سو ٹن۔ سوڈان میں سونے کے ذخائر تقریباً 1550 ٹن ہیں۔ لوہا اور تانبہ قریباً پچاس لاکھ ٹن ہے جبکہ ان وسائل کے ناقص استعمال سے ہونے والا مجموعی نقصان تقریباً 250 ارب ڈالر تک پہنچتا ہے۔
سوڈان تیل سے بھی مالامال ہے۔ تیل 2011ء تک سوڈانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے پہلے متحدہ سوڈان روزانہ تقریباً 4 لاکھ 90 ہزار بیرل تیل پیدا کرتا تھا جو ریاست کی نصف آمدنی اور 90 فیصد برآمدات پر مشتمل تھا مگر علیحدگی کے بعد سوڈان نے اپنی تین چوتھائی تیل کی دولت کھودی کیونکہ زیادہ تر ذخائر جنوب میں رہ گئے۔ آج کل سوڈان کے پاس صرف 1.25 ارب بیرل کے قریب تیل کے ذخائر ہیں لیکن خرطوم نہ تو اس محدود ذخیرے کا موثر استعمال کرسکا اور نہ ہی زراعت یا معدنیات سے کمی پوری کی۔ اس وجہ سے معیشت کسی بھی نئے جھٹکے کے لیے انتہائی نازک حالت میں ہے۔ ان تمام مادی وسائل کے ساتھ اصل سرمایہ انسان ہے۔ سوڈان کے لوگ خصوصاً نوجوان ایک بڑی قوت رکھتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے (CIA) فیکٹ بک کے مطابق ملک کی تقریباً 40 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر ہے جس کا مطلب ہے کہ سوڈان کے پاس ایک بہت بڑی نوجوان افرادی قوت ہے جو مستقبل میں زبردست پیداواری طاقت ثابت ہو سکتی ہے۔یوں سوڈان میں ترقی و بیداری کے تمام عناصر جمع ہیں۔زرخیز زمین، وافر پانی، مویشیوں کی دولت، سونا، گوندکتیرا، تیل، نوجوانوں کی طاقت اور بحیرہ احمر پر اس کا اسٹریٹجک محلِ وقوع۔
لیکن یہ سب ترقی کا سہارا بننے کے بجائے، ہمیشہ ضیاع، اسمگلنگ اور سیاسی استحصال کے دائرے میں پھنسے رہے۔ان تمام تر وسائل کے باوجود آج عالمی خوراک پروگرام ڈبلیو ایف پی کے مطابق سوڈان دنیا کے بدترین غذائی بحرانوں میں سے ایک کے دہانے پر کھڑا ہے۔ساٹھ کی دہائی سے ہی سوڈان کو ’دنیا کی غذائی ٹوکری‘ کہا جانے لگا۔ اس وقت کا جزیرہ منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی منصوبوں میں شمار ہوتا تھا۔ بعد میں معدنیات اور تیل کی دولت بھی اس میں شامل ہوئی۔ یوں لگتا تھا سوڈان ترقی کے تمام وسائل رکھتا ہے۔لیکن یہ دولت خوشحالی میں نہ بدل سکی۔ زرخیز زمینیں بیکار پڑگئیں اور بار بار قحط کی لہر آتی رہی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ دو تہائی آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے اور لاکھوں افراد بھوک سے مرنے کے خطرے میں ہیں۔
یہ سوڈانی المیہ ہے۔ وسائل سے مالامال ملک لیکن ان کی فراوانی ہی اس کے زوال اور تقسیم کا باعث بنی۔ماہرین اس کے لیے ’وسائل کی نحوست‘ نامی ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔