ٹونی بلیئر کو غزہ کا نیا حاکم بنانے کا منصوبہ، علاقی ردعمل اور مستقبل کے خدشات

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے حال ہی میں ایک ایسی خبر دی ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی اور شدید بحث چھیڑ دی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کو غزہ کی پٹی کا ایک طرح کا ’عارضی حکمران‘ یا عبوری منتظم بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت بلیئر ایک نئی بین الاقوامی اتھارٹی کی سربراہی کریں گے جسے Gaza International Transitional Authority (GITA) کہا جارہا ہے۔
اس اتھارٹی میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس کو شامل کرنے کی تجویز ہے اور اس کی پشت پر ایک عرب قیادت والی بین الاقوامی امن فورس بھی کھڑی ہوگی۔ منصوبے کے مطابق یہ عبوری ڈھانچہ تقریباً پانچ سال کے لیے ہوگا اور بعدازاں غزہ کا مکمل کنٹرول فلسطینی عوام کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ منصوبہ فلسطینی خودمختاری کی راہ ہموار کرے گا یا یہ بھی ماضی کے ان ’عارضی انتظامات‘ کی ایک نئی قسط ثابت ہوگا جو کبھی مستقل قبضے اور غلامی کے سوا کچھ نہیں بن پائے؟
منصوبے کی بنیادی تفصیلات
وال اسٹریٹ جرنل، گارڈین اور رائٹرز کے مطابق اس تجویز کے خدوخال کچھ یوں ہیں: ٹونی بلیئر (عمر 72 برس) ایک بین الاقوامی عبوری اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے۔ یہ اتھارٹی کم ازکم 5 سال کے لیے قائم رہے گی۔ فلسطینی ٹیکنوکریٹس اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے تاکہ اسے ’غیرجانبدار اور شراکتی‘ رنگ دیا جاسکے۔ ایک عرب قیادت والی امن فورس غزہ میں سلامتی قائم کرے گی۔ ابتدائی طور پر اس کا مرکز مصر کے ساحلی علاقے ’العریش‘ میں ہوسکتا ہے اور بعدازاں غزہ کے اندر تعیناتی ہوگی۔ اس منصوبے کی ایک بڑی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ حماس اپنے تمام قیدی رہا کرے، اپنے ہتھیار ڈالے اور غزہ میں اپنی عسکری موجودگی ختم کرے۔ امریکی ذرائع کے مطابق وائٹ ہاوس اس منصوبے کو کئی تجاویز میں سے ایک قرار دیتا ہے، لیکن چونکہ اسے صدر ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے اس لیے اس کے عملی ہونے کے امکانات زیادہ سمجھے جا رہے ہیں۔
بلیئر کا کردار اور متنازع ماضی
ٹونی بلیئر کوئی نیا کردار نہیں۔ وہ 1997ءسے 2007ءتک برطانیہ کے وزیرِاعظم رہے اور اس دوران امریکا کے قریبی اتحادی کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کے سیاسی کیریئر کا سب سے متنازع باب 2003ءکی عراق جنگ ہے۔ برطانیہ نے امریکا کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا لیکن بعدازاں برطانیہ کی Inquiry Chilcot رپورٹ میں یہ ثابت ہوا کہ جنگ کے جواز کے لیے پیش کی گئی انٹیلی جنس رپورٹس جھوٹی اور نامکمل تھیں۔ بلیئر نے ان رپورٹس کی بنیاد پر برطانوی عوام اور پارلیمنٹ کو گمراہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں عراقی شہری مارے گئے، خطہ تباہی اور خانہ جنگی میں ڈوب گیا اور بلیئر کا نام ہمیشہ کے لیے عرب دنیا میں ایک ’استعماری نمائندے‘ کے طور پر یاد رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام اور عرب دنیا بلیئر کو ایک غیرجانبدار ثالث نہیں بلکہ مغربی مداخلت کا نمائندہ سمجھتی ہے۔ ان پر ’قابلِ اعتماد ثالث‘ ہونے کے بجائے استعمار کے ایجنٹ ہونے کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ البتہ بلیئر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ شمالی آئرلینڈ کے Good Friday Agreement میں کلیدی ثالث تھے جس کے نتیجے میں دہائیوں پر محیط مذہبی و سیاسی تشدد ختم ہوا۔ اسی ریکارڈ کو بنیاد بنا کر انہیں ’امن ساز شخصیت‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مزید برآں، 2007ءسے 2015ءتک وہ مشرقِ وسطیٰ کی ’چوکڑی‘ (Quartet) کے خصوصی نمائندے بھی رہے جہاں انہوں نے فلسطینی معیشت کی بحالی اور دوریاستی حل کی پیشرفت کے لیے کوششیں کیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی کمزور حیثیت
اس منصوبے کی ایک بڑی وجہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی کمزوری ہے۔ اوسلو معاہدوں کے بعد سے پی اے کے پاس نہ مکمل سیاسی اختیار ہے، نہ سلامتی پر کنٹرول۔ مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ براہِ راست اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پی اے داخلی طور پر شدید تقسیم اور عوامی حمایت کے بحران کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں یہ تصور کیا جارہا ہے کہ غزہ کے مستقبل کے لیے کوئی بیرونی، عبوری فریم ورک ہی ’قابلِ عمل‘ ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے عبوری ڈھانچے ہمیشہ فلسطینی خودمختاری کو مزید مو¿خر کرتے آئے ہیں۔
فلسطین میں ’عارضی انتظامات‘ کی تاریخ
یہ منصوبہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ فلسطینی عوام کی تاریخ عبوری انتظامات کے تلخ تجربات سے بھری ہوئی ہے۔ ٭کیمپ ڈیوڈ (1978ء): مصر اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہوا۔ مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور سینا واپس لے لیا۔ فلسطینی مسئلہ کو پانچ سالہ ’خودمختاری منصوبے‘ کے نام پر موخر کردیا گیا جس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ٭میڈرڈ کانفرنس (1991ء): امریکا اور سوویت یونین کی سرپرستی میں ہوئی۔ فلسطینیوں کو ضمنی شریک کے طور پر پیش کیا گیا۔ فلسطینی ریاست کے سوال کو براہِ راست تسلیم کرنے کے بجائے ایک ’مرحلہ وار عمل‘ میں الجھا دیا گیا۔ ٭اوسلو اوّل (1993ء) اور اوسلو ٹو (1995ء): ان معاہدوں میں فلسطینی اتھارٹی کو عبوری حیثیت دی گئی تاکہ پانچ سال میں ریاست قائم ہو، لیکن مغربی کنارے کو تین حصوں (اے، بی، سی) میں تقسیم کردیا گیا اور آج تیس برس بعد بھی یہ ’عارضی‘ تقسیم برقرار ہے۔ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ عبوری انتظامات دراصل قبضے کو مستقل کرنے کے نئے طریقے ہوتے ہیں۔
بلیئر کا منصوبہ: ایک نیا ’سائکس پیکو؟‘
1916ءکا ’سائکس پیکو‘ معاہدہ سلطنتِ عثمانیہ کی عرب سرزمین کو برطانیہ اور فرانس نے بانٹنے کے لیے کیا تھا۔ آج بلیئر کی سربراہی میں مجوزہ ’غزہ اتھارٹی‘ اسی پرانی روش کی بازگشت محسوس ہوتی ہے۔ بیرونی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کی تقدیر طے کررہی ہیں جبکہ اصل عوام یعنی فلسطینی ایک بار پھر اپنے ہی مستقبل کے فیصلوں سے باہر رکھے جا رہے ہیں۔
علاقائی و عالمی ردِعمل
ابھی تک اسرائیل نے اس منصوبے پر باضابطہ رائے نہیں دی۔ بعض اسرائیلی ذرائع کے مطابق اسرائیل ایسی بین الاقوامی فورس یا غیر ملکی اتھارٹی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس کے غزہ پر مکمل سیکورٹی کنٹرول کے خواب سے متصادم ہے جبکہ یہ منصوبہ حماس کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اس کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور اسرائیلی قیدی رہا کرے جو کہ اس کے وجود اور مزاحمتی فلسفے کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔ عوامی سطح پر شدید بدگمانی پائی جاتی ہے۔ یہ خدشہ عام ہے کہ ایک اور عبوری انتظام فلسطینی ریاستی خودمختاری کو غیرمعینہ مدت تک موخر کردے گا۔ کچھ عرب ریاستیں جو واشنگٹن کے قریب ہیں اس منصوبے کو ’امن پسند اقدام‘ کے طور پر دیکھ رہی ہیں، تاہم وسیع تر عرب رائے عامہ اسے ایک نئی استعماری سازش کے طور پر لیتی ہے۔
مستقبل کے خدشات
یہ سوال سب سے اہم ہے: کیا بلیئر کی اتھارٹی واقعی غزہ کے لیے امن اور تعمیرنو کا ذریعہ بنے گی یا یہ فلسطینی خودمختاری کو مزید پیچھے دھکیلنے کا جال ہے؟ ماضی کی مثالیں ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ ’عارضی‘ اکثر مستقل بن جاتا ہے۔ ٹونی بلیئر کی بطور ’عارضی حکمران غزہ‘ تقرری کا منصوبہ محض انتظامی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئی بڑی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ یہ منظرنامہ سائکس پیکو کی دوسری قسط لگتا ہے جہاں بیرونی طاقتیں ایک بار پھر اپنے مفادات کے مطابق سرزمین اور عوام کی تقدیر کا فیصلہ کررہی ہیں۔ اگر عالمی برادری نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا اور فلسطینی عوام کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسے منصوبے مسلط کیے تو خطہ ایک بار پھر خونریزی اور انتشار میں ڈوب جائے گا۔ بلیئر کا نام تنازع کے بیچ لاکر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی قسمت اب بھی باہر کے طاقتور ہاتھوں میں ہے اور فلسطینی عوام کی آواز آج بھی دبائی جارہی ہے۔