جید سبینس، انگلش فٹ بال کی تاریخ کا پہلا مسلم کھلاڑی بن گیا

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
انگلینڈ کی فٹبال کی 153 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک نومسلم کھلاڑی نے قومی ٹیم میں جگہ بنالی ہے۔ ٹوٹنہام ہاٹسپرس کلب کے نوجوان ڈیفنڈر جید سبینس (Djed Spence) کو قومی کوچ کی جانب سے ورلڈ کپ 2026ء کے کوالیفائنگ میچز کے لیے تھری لائنز کے اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ اس اعلان کے بعد سبینس انگلینڈ کی سینئر ٹیم کی نمائندگی کرنے والے پہلے مسلم فٹبالر بن گئے ہیں۔
25 سالہ سبینس کو پہلی بار انگلینڈ کی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق انہیں 2026ءکے ورلڈ کپ کوالیفائرز میں اینڈورا اور سربیا کے خلاف کھیلنے والی انگلش ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ یہ اعلان ان کے لیے کیریئر کا سب سے بڑا لمحہ تھا، کیونکہ اب تک انگلینڈ کے مردوں کی قومی ٹیم نے کبھی کسی مسلمان کھلاڑی کو موقع نہیں دیا تھا۔ یہ موقع ان کے کیریئر میں ایک نمایاں موڑ ہے، کیونکہ وہ ماضی میں ٹوٹنہام سے تین مختلف کلبوں فرانسیسی کلب رین، لیڈز یونائیٹڈ اور اطالوی کلب جنوا کی طرف سے کھیلتے رہے ہیں۔ گزشتہ سیزن انہوں نے اسپیرز کی پہلی ٹیم میں مستقل جگہ بنائی اور شاندار کارکردگی دکھائی۔سبینس کا یہ انتخاب اس لحاظ سے بھی تاریخی ہے کہ انگلینڈ کی قومی ٹیم نے اس سے پہلے کبھی کسی مسلم کھلاڑی کو نمائندگی کا موقع نہیں دیا۔ انگلش فٹبال ایسوسی ایشن کے پاس کھلاڑیوں کے مذہب کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تاہم میڈیا رپورٹس اور ان کے ذاتی اعتراف کے مطابق وہ پہلے مسلم کھلاڑی ہیں جو سینئر ٹیم میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ موقع صرف کھیل کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ برطانوی سماج اور فٹبال کے ثقافتی منظرنامے کے لیے بھی ایک سنگِ میل قرار پایا۔
اپنے پہلے سیشن کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سبینس نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ میرے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ سب ناقابلِ یقین لگتا ہے۔ میں اللہ سے بہت دعا کرتا ہوں اور اس کا شکر گزار ہوں۔ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات میں میرا ایمان میرے ساتھ رہا۔ میں ہمیشہ یقین رکھتا تھا کہ اللہ میرے قریب ہے۔ یہی میرا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناتے وہ کسی دباو¿ میں نہیں ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کی کہانی دوسروں کے لیے امید کا باعث بنے۔ میں صرف خوشی کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں۔ اگر میں یہ کر سکتا ہوں تو کوئی بھی کرسکتا ہے، چاہے وہ مسلمان بچہ ہو یا کسی بھی مذہب کا۔ آپ جو خواب دیکھتے ہیں وہ پورے کیے جا سکتے ہیں۔سبینس کا کیریئر ہمیشہ ہموار نہیں رہا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ ٹوٹنہام کے کوچ انجی پوسٹیکوگلو کی اسکیم میں آخری انتخاب تھے حتیٰ کہ یورپا لیگ کے گروپ اسٹیج کی فہرست میں بھی ان کا نام شامل نہیں کیا گیا لیکن قسمت نے پلٹا کھایا اور انہوں نے ناک آو¿ٹ مرحلے میں نیدرلینڈز کے کلب اے زیڈ الکمار کے خلاف دونوں میچز مکمل کھیل کر شاندار واپسی کی۔ بعدازاں انہوں نے مانچسٹر یونائیٹڈ کے خلاف فائنل میں بھی شرکت کی جس میں ٹوٹنہام نے تاریخی کامیابی حاصل کر کے 17 سال بعد بڑا ٹائٹل اپنے نام کیا اور چیمپیئنز لیگ کے لیے کوالیفائی کیا۔ اس کے بعد سے سبینس ٹیم کے لازمی رکن بن گئے اور موجودہ سیزن میں پریمیئر لیگ کے تقریباً تمام میچز مکمل کھیل کر اپنے انتخاب کو یقینی بنایا۔
سبینس نے اس سے پہلے انگلینڈ انڈر‘ 21 ٹیم کی نمائندگی بھی کی تھی اور مارچ 2022ءمیں البانیا کے خلاف پہلا میچ کھیلا تھا۔ کوچ لی کارسلی ان کی صلاحیتوں کے بڑے مداح رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا: مجھے جید بہت پسند ہے۔ وہ ایک شاندار کھلاڑی ہے، فٹنس اور صلاحیت دونوں میں بہترین، پُرجوش لیکن متواضع۔ اس کے اندر قیادت کی صلاحیت، ڈرِبلنگ، دفاعی مہارت اور گول کرنے کی اہلیت سب موجود ہے۔ سبینس کی قومی ٹیم میں شمولیت صرف ایک کھلاڑی کی ذاتی کامیابی نہیں بلکہ برطانیہ میں مسلم برادری اور دنیا بھر کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک نئی مثال ہے۔ ان کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان اور محنت کے امتزاج سے بڑی سے بڑی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔سبینس اب انگلینڈ کے ان چند کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن پر قوم کی نظریں جمی ہیں اور ان کا یہ اعزاز نہ صرف ان کے کیریئر بلکہ فٹبال کی تاریخ میں ایک نئے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
میدان میں پہلا قدم
بی بی سی کے مطابق سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں کھیلے گئے 2026ءورلڈ کپ کوالیفائر میچ میں سبینس نے پہلی بار انگلینڈ کے لیے میدان میں قدم رکھا۔ اس میچ میں انگلینڈ نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان کو پانچ صفر سے شکست دی اور 15 پوائنٹس کے ساتھ گروپ میں اپنی برتری مزید مستحکم کر لی۔ بی بی سی نے اس موقع پر ایک خصوصی ٹویٹ بھی جاری کی جس میں سبینس کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا:سبینس انگلینڈ کی سینئر قومی ٹیم کی تاریخ کے پہلے مسلم کھلاڑی کے طور پر شریک ہوئے۔بی بی سی نے اس لمحے کو نہ صرف کھیل بلکہ سماجی اور ثقافتی سطح پر بھی ایک بڑی تبدیلی قرار دیا۔ برطانیہ کی فٹبال تاریخ میں مسلمانوں کی خدمات ہمیشہ کلب سطح تک محدود رہی ہیں، مگر قومی ٹیم کی نمائندگی ایک ایسا اعزاز ہے جو پہلی بار کسی مسلمان کے حصے میں آیا ہے۔
مستقبل کےلئے اُمید
سبینس کا یہ سفر صرف ان کی ذاتی کامیابی نہیں بلکہ انگلینڈ کے ہزاروں مسلم نوجوانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ اب تک انگلش فٹبال میں یہ شکایت موجود رہی کہ اقلیتی پس منظر کے کھلاڑیوں کو قومی سطح پر مواقع کم ملتے ہیں، مگر سبینس کی شمولیت اس روایت کو بدلنے کی نوید بن سکتی ہے۔ان کا یہ پیغام کہ” میں بغیر دباو¿ کے مسکراتے ہوئے کھیلتا ہوں، باقی سب اللہ پر چھوڑ دیتا ہوں“ صرف کھیل کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک رہنما جملہ ہے۔واضح رہے کہ فٹبال کی تاریخ میں انگلش فٹبال ٹیم (team football national men’s England ) بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم قومی ٹیموں میں سے ایک ہے۔ یہ ٹیم 1872ءمیں وجود میں آئی جب انگلینڈ نے اسکاٹ لینڈ کے خلاف تاریخ کا پہلا بین الاقوامی فٹبال میچ کھیلا۔ اس میچ کو دنیا کی پہلی بین الاقوامی فٹبال گیم بھی کہا جاتا ہے جو 30 نومبر 1872ءکو گلاسگو (اسکاٹ لینڈ) میں ہوا تھا اور نتیجہ 0-0 رہا تھا۔ اس طرح انگلش قومی ٹیم کو باقاعدہ طور پر تقریباً 153 سال پرانی تاریخ حاصل ہے۔ اس طویل تاریخ میں جید اس ٹیم کے پہلے مسلم کھلاڑی بن گئے ہیں۔