صہیونی عقوبت خانوں میں مظالم کی دلخراش داستان

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
دوسری قسط:
اس عرصے کے دوران اسرائیل نے فوجی فیصلوں کے مطابق اور سیاسی منظوری کے ساتھ کیمپوں کے ایک گروپ کو نامزد کیا جسے وہ “لیبر مراکز یا “جبری مشقت کے کیمپ کے طور پر استعمال کرتا تھا، جہاں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی پیداواری تنصیبات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، خاص طور پر ان سے سخت مشقت لی جاتی۔ انہیں پتھر کی کانوں، تعمیرات اور کھدائی کے کاموں پرمجبور کیا جاتا۔ اسرائیلی تاریخ دان ایلان پاپے اپنی کتاب “فلسطینیوں کی نسلی صفائی میں بتاتے ہیں کہ اس وقت اسرائیلی حراستی مراکز میں تقریبا 9000 فلسطینیوں کو رکھا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر 10 سے 50 سال کی عمر کے مرد دیہاتی تھے۔ 1949 میں اسرائیلی جیل سروس کا قیام عمل میں آیا، جس نے نئی مستقل جیلیں قائم کیں اور ساتھ ہی ساتھ الجلیل، عتلیت، سرافند، اور ام خالد جیسی عارضی جیلوں کو بند کیا۔ جیلوں کی تعمیر 1950 کی دہائی میں شسروع ہوئی، جو 1966 تک جاری رہی۔

اسرائیلی حکام 1948ء میں مقبوضہ فلسطینی دیہات پر فوجی حکمرانی نافذ کرنے میں مصروف رہے۔ جس نے ان علاقوں کو بڑے بڑے حراستی کیمپوں میں تبدیل کر دیا۔ فوجی گورنر کی اجازت سے گاؤں سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی جاتی اور رات کو کرفیو نافذ کر دیا جاتا۔ اس طرح قابض صہیونی فوج پورے پورے گاؤں کو ایک اجتماعی قید خانے میں تبدیل کردیتی۔

1967 کے بعد جون 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، جزیرہ نما سینا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں مزاحمتی سرگرمیاں تیز ہوئیں اور اسرائیل نے حریت پسند کارکنوں کو دبانے اور مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے متعدد جیلیں قائم کیں۔ان میں عسقلان اور بیر سبع نامی حراستی کیمپ سرفہرست تھے۔ اس نے سینا میں دو خفیہ حراستی اور جلاوطنی کیمپ قائم کیے، جن میں سے ایک نخل حراستی کیمپ تھا، جو 1968ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہاں 18سے 30سال کی عمر کے سینکڑوں نوجوان جنہیں غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا کو قید کیا گیا۔ اسرائیل نے بعد میں دعویٰ کیا کہ اس نے بے روزگار غزہ کے باشندوں کو کیمپ میں داخل کیا تھا اور کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا شکار ہیں۔ ہمارا مقصد انہیں تعمیراتی کام میں پیشہ ورانہ تربیت دینا اور پھر انہیں مغربی کنارے منتقل کرنا ہے۔ دوسرا ابو زینیما کیمپ تھا جو 1970ء میں جنوبی سینا میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے فدائین کے خاندانوں کو حراست میں لیا تھا، جس کا مقصد مطلوب افراد پر دباؤ ڈالنا اور مزاحمت کو دبانا تھا۔ اس کیمپ میں چھبیس خاندانوں کو قید کیا گیا، جن میں درجنوں بچے اور خواتین شامل تھیں۔

جبری طور پر گرفتار کیے گئے خاندانوں میں سے ایک خاندان کے 59ارکان تھے۔ 1973 ء میں بند ہونے تک کیمپوں میں قیدیوں کی تعداد یا ان سے متعلق کوئی معلومات کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔ کئی سال بعد اسرائیلی پریس نے ان دونوں کیمپوں سے متعلق کچھ معلومات کا انکشاف کیا۔ قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے قابض اسرائیل نے 1970 ء اور 1971ء میں نئے حراستی کیمپ قائم کیے۔ ان میں القاسمہ حراستی کیمپ، وادی موسیٰ(بیت المقدس کے الطور قصبے میں قائم کردہ کیمپ)حراستی کیمپ، سینٹ کیتھرین حراستی کیمپ اور العریش حراستی کیمپ شامل تھے لیکن اس نے ان سب کو 1973ء میں بند کر دیا۔

مزاحمت کو دبانے کیلئے عقوبت خانوں کا ہتھکنڈہ
اسرائیل کی جنگیں ہمیشہ نئے حراستی مراکز کے قیام سے وابستہ رہی ہیں۔1982ء میں لبنان پر حملے اور غزہ میں ہونے والی متعدد جنگیں تھیں، جن کے بعد جیلیں قائم کی گئیں۔ ان جیلوں کا قیام 1987ء کے انتفاضہ اور 2000 ء کے انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت میں اضافے کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ ان کیمپوں میں دسیوں ہزار مزاحمت کاروں اور شہریوں کو قید کیا گیا۔ 1982ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو اس نے جنوبی قصبے انصار میں انصار حراستی کیمپ قائم کیا۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے اسے ”مخلات انتسار یعنی ”انصار کا احاطہ کا نام دیا۔ وہاں 4,700فلسطینیوں اور عربوں کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے سبھی کو 1983ء میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا۔ یہ کیمپ کھلے علاقے میں قائم کردہ سینکڑوں خیموں پر مشتمل تھا، جو خاردار تاروں سے گھرا ہوا تھا، جس میں انسانی وقار کو سر عام مجروح کیا جاتا اور وہاں لائے گئے قیدیوں پر سر عام اور ظالمانہ تشدد کیا جاتا۔ 10,000سے 15,000کے درمیان قیدیوں کو تین سال کے عرصے کے لیے حراست میں رکھا گیا، جنہیں مختلف قسم کے تشدد، بدسلوکی، قتل اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ 1985ء میں کیمپ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔

1984ء میں غزہ شہر کے ساحل پر انصار 2کیمپ قائم کیا گیا، جہاں غزہ کے سینکڑوں نوجوانوں اور یونیورسٹی کے طلبا جنہوں نے اس سال کے بڑے مظاہروں میں حصہ لیا تھا کو قید کر دیا گیا۔ کیمپ ایک سال بعد بند کر دیا گیا، پھر 1987ء کے انتفاضہ کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔

تین اقسام کے حراستی کیمپ
(1)حراستی مراکز:
یہ عام طور پر اسرائیلی فوجی تنصیبات کے اندر یا آبادکاروں کے زیر تسلط زمینوں کے اندر واقع ہوتے ہیں۔ قیدی اس وقت تک حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے جب تک کہ انہیں مقدمے میں نہیں لایا جاتا۔ ان مراکز میں سب سے نمایاں نابلس کے قریب حوارہ کیمپ، رملہ کے جنوب مشرق میں بیت ایل حراستی مرکز، بیت لحم کے قریب عتصیون حراستی مرکز، طولکرم میں کیدوم حراستی مرکز، جنین کے شمال مغرب میں سالم حراستی مرکز اور بیت لِدہ اور بیت لِد کے درمیان کفار یونا حراستی کیمپ شامل ہیں۔(جاری ہے)